Wednesday 11 November 2020

ڈپریشن

 ﷽                 

   ڈپریشن، اسلام اور علاج

       از قلم: ام محمد

؎اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں

مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ اسلام ہماری ہر طرح کی نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کجا کہ اس کا تعلق ہماری زندگی کے شعبےسے ہو یا ہمیں پیش آنے والے مسائل  و بیماریوں سے ہو، اسلام  احسن طریقے سےہماری رہنمائی کرتا ہے۔اسلام ہی وہ دین ہے جو ہمیں  درپیش آنے والے مسائل سے پرہیز بتاتا ہے اور اگر ہماری غفلت یا   تقدیر  کے غالب ہونے کی وجہ سے ہم کسی پریشانی کا سامنا کرتےہیں تو اس کا حل بھی بتاتا ہے۔اسلام کے علاوہ ہم کوئی بھی طریقہ علاج اپنا لیں  اس میں ہمیں کم یا زیادہ مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسلام ہی جس پر عمل پیرا ہونے سے ہمیں کوئی عارضہ لاحق نہیں ہوسکتا الا یہ کہ حکمت الٰہی پوشیدہ ہو،جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

"یہ قرآن جو ہم  نازل کر رہے  ہے مومنوں کے لئے سراسر شفاء اور  رحمت ہے"۔(الاسرا#82)

"آپ کہہ دیجئے ! کہ یہ تو ایمان والوں کے لیے  ہدایت و شفاء ہے۔"(حم السجدہ#44)

آئیےذرا !ہم ڈپریشن کے بارے میں جان لیتے ہیں ، ڈپریشن ایک نفسیاتی عارضہ ہے جسےیوں سادہ الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا مرض ہےجس میں فرد پر افسردگی (depression)کی کیفیت  نمایاں طور پر چھا جاتی ہے۔ اس میں انسان  بے حد اداس ، مضمحل(anxious) اور ناامید(hopeless) ہو جاتا ہے۔مزید برآں کہ  ڈپریشن کے مریض کو جسمانی تکالیف کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے مثلا سر درد، معدے  یا جسم کے  مختلف حصوں میں درد رہنا۔ماہر نفسیات نے ڈپریشن کی نشاندہی کے لئے  کچھ علامات بتائی ہیں ضروری نہیں ہر بندے میں ساری علامات  موجود ہوں ۔ کم از کم چار علامات  دو ہفتوں تک موجود ہوں اور ان کی وجہ سے معمولاتِ زندگی متاثر ہو رہے ہوں تو فرد کو ڈپریشن کا مسئلہ ہے۔علامات میں ہر وقت  یا زیادہ تر  اداس اور افسردہ رہنا، بھوک نہ لگنا، نیند نہ آنا،جسمانی یا ذہنی کمزوری و تھکن  ہونا،کسی کام میں دل نہ لگنا،خود کو کم تر سمجھنا اور خود اعتمادی ختم ہونا، ماضی میں ہوئی غلطی کا خود کو مورد الزام ٹھہرانا اورخود کشی کا سوچنا اور عمل کی کو شش کرنا، شامل ہیں۔ میرے مختصر و محدود علم کے مطابق ہر دس بندوں میں سے آٹھ افراد  ایسے ہیں جو اس موذی مرض کا شکار  لگتے ہیں۔خواہ مؤجب ِ بیماری کچھ بھی ہومثلا کسی قریب و عزیز کا انتقال، نا قابل تلافی نقصان ہونا،کسی کا طلاق ہونا، یا اس قسم کے کوئی بھی تجربات کیوں نہ ہوئے ہوں۔ مندرجہ بالا حادثات میں دکھ، غم یا اداسی کا ہونا ایک فطری اور قدرتی  ردعمل ہے ، لیکن ہر وقت ہی یاسیت  اور غم میں مبتلا رہنا   اور معمولات زندگی  متاثر  ہونا ڈپریشن کو ظاہر کرتا ہے ۔

آیئے!اب اسلام  کی نظر میں ڈپریشن کو دیکھتے ہیں۔سب سے پہلی بات کہ ایک مومن کبھی                 depress                 ،  اللہ کی  رحمت سے نا امید و  مایوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اللہ کی رحمت سے تو مایوس کافر لوگ ہی ہوتے ہیں۔جبکہ مومن کا معاملہ ہی الگ ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث نبویﷺ میں ہے۔

"مومن کا معاملہ بھی  عجیب ہے ۔ اس کے ہر کام میں اس کے لئے خیر و بھلائی ہے اور یہ مومن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے ، اگر اسے آسودگی(خوشحالی) حاصل ہو تو اللہ کا شکر ادا  کرتا ہے، یہ بھی اس کے لئے خیر ہے،اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہےیہ بھی اس کے لیے بہتر ہے"۔(مسلم)

جب ماضی و مستقبل کے غموں کا دور دورہ ہو ، زندگی غموں میں لپٹی دکھائی دے اور کوئی راہ فرار بھی نہ ملے تو یہ  وہ مقام ہے جب بندہ اللہ کا شکر ان انعامات  پر کرے تو اللہ حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں اور  مزید عطا کرنے کی نوید بھی  دیتے ہیں جیسا کہ:

"اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گااور ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی شدید ہے۔"(ابراہیم:07)

 ایک حدیث کے مطا بق ہر بچہ فطرت اسلام پہ پیدا ہوتا ہے۔ جب ہم  فطرت سے ہٹ کر چلتے ہیں تو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جب ہم اسلام کے وضع کردہ اصول سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو مسئلہ اس وقت نمودار ہوتا ہے جب یہاں خلل واقع ہوتا ہے۔اللہ عزوجل  فرماتے ہیں کہ:

"تمہیں جو کچھ بھی مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرماتا ہے۔" (الشوریٰ: 30)

اسلام کے ذریعے ہی ہم  خوشیاں اور قلبی اطمینان حاصل کر سکتے ہیں۔   یہ چاہنا کہ انسان کی زندگی  دکھوں، تکلیفوں اور غموں سے مبرا ہو  تو ایسی چاہت ما فوق الفطرت کے سوا کچھ نہیں۔اللہ نے ہمیں ان سے نبٹنے کے طریقے بھی سیکھائے ہیں بس ہمیں ان کو عملی جامہ پہنانا ہے۔جیسے کسی بہت پیارے کی وفات پہ ہمارا کیا ردعمل ہونا چاہئیے؟ رسول اللہﷺ  نےاس کا بہترین نمونہ دیا۔

"سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  انھوں نے کہا ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ابو یوسف لوہار کے گھر گئے ۔وہ   ابراہیم رضی اللہ عنہ کی انا کا خاوند تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ابراہیم کو گود میں لیا اور ان کو پیار کیااور سونگھا۔ پھر اس کے بعدہم ابو یوسف  کے پاس گئے  تو دیکھا ابراہیم دم توڑ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر  رسول اللہﷺ کی آنکھوں سے  آنسو بہہ نکلے۔عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ  رسول اللہ ﷺ سے  عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ بھی لوگوں کی طرح بے صبری کرنے لگے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عوف کے بیٹے یہ بے صبری نہیںرحمت ہے۔ پھر دوسری بار روئے اور فرمایا آنکھ  تو آنسو بہاتی اور دل کو رنج ہوتا ہے پر زبان سے ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے  پروردگار  کوپسند ہے۔بے شک ابراہیم  ہم تیری جدائی سے غمگین ہیں"۔(بخاری، کتاب الجنائز  : 1225)

جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ:

"صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے"۔(بخاری:1283) 

کوئی بھی تکلیف ملے تو بجائے اس پہ واویلا کرنے کے ہمیں خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔ اور کوئی بھی منفی سوچ کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہیں دینا چاہئے مثلا میں ہی رہ گیا تھا ؟ ایسا میرے ہی ساتھ ہونا تھا؟ یا میں تھا ہی اسی قابل ۔۔۔ وغیرہ  بلکہ تقدیر کا فیصلہ مانتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے۔شیطان کا کام ہی انسانی دماغ کو وسوسوں سے بھرنا ہے اور اللہ کی رحمت سے دور   و نا امید کرنا ہے۔جبکہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔

جب انسان کی روحانی طاقت کمزور پڑتی ہے تو شیطان کا وار اور آسان ہو جاتا ہے۔ وہ ہمیں ہر طرح سے خوف و ناامیدی میں مبتلا کی کوشش کرتا ہےجبکہ اللہ فرماتے ہیں:

"کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟"۔(الزمر:36)

جب لگ رہا ہو کہ ہمارے لئےکچھ نہیں اس دنیا میں ، ہمارا کوئی نہیں جسکو ہماری فکر ہو ، جسے ہم سے محبت ہو تو جان لیں ایک  عظیم ہستی ایسی بھی ہے جو ہمیں کبھی نہیں بھولتا ، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:

"اور تمہارا رب( تمہیں) بھولنے والا نہیں"۔ (المریم:64) 

قارئین ! اگر ہماری سستی و غفلت یا خطا و نسیان کی وجہ سے ہم اس مرض کے شکار ہو چکے ہیں تو ہمارا علاج کیا ہو سکتا ہےاس کے بارے میں جانتے ہیں۔ ماہر نفسیات  اس کا علاج دو طریقوں سے کرتے ہیں 

1)            psychotherapy ،             ماہر نفسیات  کلائنٹ  کو  جانچنے کے بعد اپنے طریقہ علاج  کا خاکہ تیار کر لیتا ہے ۔

 2) antidepressant  ادویات سے ۔ دماغ میں متعدد کیمیائی مواد موجود ہوتے ہیں  اور ڈپریشن میں دو خاص مادوں  سیروٹونن  اور نار ایڈرینلین(serotonin & nor adrenaline )کی کمی واقع ہوتی ہے ۔ جن کی مقدار کو دوائی کے ذریعے بڑھایا جاتا ہے اور کچھ سکون آور ادویات (tranquilizers) فرد کو سکون کے لئے دی جاتی ہیں۔

میں اس  طریقہ علاج کو غلط نہیں کہتی بلکہ میں ایک ماہر نفسیات کی بات سے متفق ہوں جن کے مطابق  کلائنٹ کی بات کو توجہ سے سن لینا ہی میرے کلائنٹ کے آدھے مسئلے حل ہو جاتےہیں۔ آج کی افراتفری میں ہمیں اچھے سامع اورتسلی  وتشفی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام ماہر نفسیا ت بخوبی سر انجام دیتے ہیں۔ 

لیکن میرے محدود و مختصر علم کے مطابق  اسلام سے بہتر و مؤثر  تھراپی ہو ہی نہیں سکتی۔ہمیں اسلام کو اپنی زندگیوں سے ظاہر کرنا ہے، ہمیں اسلام کی تعلیمات کو من و عن قبول کرنا چاہیے۔اسلام ہمیں آداب معاشرت بھی سیکھاتا ہے اور حقوق العباد پر بھی زور دیتا ہے، جب ہم اسلامی اخوت و بھائی چارے پر عمل کریں گے تو  ہمارے مسائل کے لئے اچھے سامع بھی ملیں گے اور ہماری تسلی و تشفی بھی ہوجائے گی۔ اگر ہم سے کوئی  کسی معاملے میں پریشان ہے اور حل بھی نظروں سے اوجھل ہے تو دعا کریں۔کہا جاتا ہے کہ دعا تو ہوتی ہی قبول ہونے کے لیے ہے، دعا تو عبادت کا مغز ہےلہٰذا دعا کو  چھوٹا نہ جانیئے ۔اور پھر  نماز  اور صبر سے مدد مانگیں جیسا کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے  نماز اور صبر سے مدد مانگو۔اپنا ٹارگٹ دنیا کی بجائے آخرت کو بنائیں ، ہر کام میں اللہ کی رضا  و خشنودی کو اولیت  دیں۔ انسانوں سے بلاوجہ  امیدیں لگائیں بلکہ  ہر امید اللہ سے باندھیں  دنیوی مسائل کا کم شکار ہوں گے۔ ماضی کی پریشانیوں اور مسقبل کے خوف کی بجائے حال  پر نظر رکھیں جو ہونا تھا ہو گیا اب ہم بدلنے سے قاصر ہیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں ۔ اللہ ہمیں خود سے  مضبوط تعلق بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

وما علینا الا البلاغ مبین

Wednesday 16 September 2020

جادو یا نفسیاتی خلجان

 ﷽

جادو یا نفسیاتی خلجان؟؟؟

معزز قارئین! اگر ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں عجیب قسم کی بھاگم بھاگ اور افراتفری محسوس ہوتی ہے۔جو ہماری تیز رفتار زندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہم نے اپنی رفتار کو قائم رکھنے کے لیے اپنی زندگی میں ناخالص(ملاوٹ زدہ) چیزیں شامل کر لی ہیں ۔اس  ملاوٹ زدہ  ماحول میں رہتے ہوئے ہمیں کوئی بھی چیز خالص  میسر نہیں ہوسکتی۔ خواہ اس کا تعلق ہم سے ، ہماری خوراک  سے ، یا پھر  ہمارے طریقہ علاج سے کیوں نہ ہو؟ جب احساس و اخلاص ہی ناپید ہوچکے ہوں تو مسیحا بھی کیا مسیحائی دکھائیں گے۔خواہ ان کا تعلق  جسمانی و نفسیاتی عوارض سے ہو یا  جادو جیسے قبیح امر سے ہو۔

معززین! کہا جاتا ہے کہ اگر مسئلے کی نوعیت سمجھ  آ جائے تو  اس کا حل تلاشنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔نفسیاتی عوارض(psychological disorder)اورجادو(magic/spell) میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے،جس کی وجہ سے  ہمیں مسئلے کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ تو اس کے لئے بھی مفکرین و علماء کرام نے کچھ معیار وضع کر دئیے ہیں۔  پہلے ہم ان دو نوں اصطلاحات کے بارے میں جان لیتے ہیں کہ ان کا مطلب کیا ہے تاکہ ہمیں مسئلے کی نوعیت سمجھنے میں مدد ملے اور ہم اپنی اور دوسروں کی اچھے سے رہنمائی کر سکیں۔

امام رازی ؒ  جادو کی تعریف کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں: "شرعی اصطلاح میں جادو ہر اس امر کو کہتے ہیں جس کا سبب پوشیدہ ، خلاف ِحقیقت نظر آئےاور دھوکہ دے"

اور جو شخص اس کا علاج(دم) کرتا ہے اسے راقی کہتے ہیں اور  جو دم کیا جاتا ہے اسے رقیہ کہتے ہیں۔راقی اور رقیہ دونوں شریعت کے مطابق  ہوں تو علاج مؤثر ہوتا ہے۔

معززین ! اب  نفسیاتی خلجان کی بات کرتے ہیں، خلجان کو انگریزی میں(agitation/anxiety) ہیں۔نفسیات انسان کے ذہنی و فکری  رویوں کے مطالعے کا نام ہے،مزید برآں کہ اس میں پیدا  ہونے والی پیچیدگیوں(خلجان)کے اسباب، حالات اور  نتائج کا جائزہ لینا ہے۔گو یہ کے ہر وہ قول و فعل جو انسان کے تفکر و تدبر پر برے اثر ڈالے  اس کے بارے میں آگہی کو نفسیات کا علم کہتے ہیں۔اور اس کا علاج کرنے والے کو ماہر نفسیات(psychologist/ psychiatrist ) کہتے ہیں۔

معزز قارئین ! اب ہم ان کی تفصیل  دیکھتے ہیں ،جب انسان کو حالات ساز گار نہ لگتے ہوں ، کچھ بھی  اس کی چاہت کےمطابق نہ ہو اور نہ ہی وہ اسکی اہلیت رکھتا ہو تو حسدو بغض کی بناء پر، اپنی ہٹ دھرمی و اجارا داری قائم رکھنے کے لئے  جادو جیسے  غلیظ عمل سے مدد لیتا ہے۔قرآن میں واضح الفاظ میں جادو کا ذکر ہے۔

اور ان (جادو منتر)کے پیچھے لگ گئےجو سلیمان کے دور میں شیاطین پڑھا کرتے تھےاور سلیمان نے کفر کی بات نہیں کی ، بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔(سورہ البقرہ #102)

دوسری جگہ قرآن نے سیدنا موسیٰؑ اور جادو گروں کا مکالمہ نقل کیا ہے۔سورہ طہ (65-66#)میں یہ واقعہ اس طرح نقل ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ موسیٰ تم ڈالتے ہو یا ہم پہلے ڈالنے والے بنیں؟ موسیٰ نے کہا کہ تم ہی ڈالو ، پھر ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو خیال گزرا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑ رہی ہیں۔ 

جادو کا اثر تھا کہ عام رسیاں اور لاٹھیاں سانپ لگنے لگیں ۔حقیقی اور بڑی سطح پہ کئے جانے والے(magic shows) میں بھی ساحر اپنا منتر لوگوں کی آنکھوں پہ پھونکتاہے جس کے باعث دیکھنے والے وہی دیکھتے ہیں جو وہ دیکھانا چاہتا ہے۔سحر (جادو)  کا ہوناحق ہے، اور یہ خرافات آج کے دور کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ صدیوں پرانا طریقہ ہے۔جس میں بدلہ لینے کی سکت نہیں وہ دور بیٹھے  سامنے آئے  بغیرجادو کے ذریعے دوسروں کو برباد کردے ۔کسی بھی عمل کے مؤثر  ہونے کے لئے کچھ شرائط کا ہونا ضروری ہے خواہ عمل درست ہو یا غلط۔جادو بھی تب تک  واقع نہیں ہوتا جب تک اس کی شرائط پوری نہ کی جائیں مثلا شیطان کے ماتحت ہونا،اسکی  غلامی کرنا، شرک کرنا، غلیظ کام کرنا ، اور ایسا کلام (منتر) پڑھنا جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ اس طرح جنوں(شیاطین) سے دوستی گانٹھ لیتا ہےاور شیطان (upper hand) ہونے کی بنیاد پہ اس کے تمام  مکروہ کام انجام تک پہنچانے میں اس کی مدد کرتا ہے۔الفاظ بھی تاثیر رکھتے ہیں تعریفی الفاظ دوسرے کو خوشی دیتے ہیں تو تحقیر و تنفر بھرے الفاظ دوسروں کو اذیت دیتے ہیں ۔یہ بات تو جاپان کے ایک مصنف(ماسارو ایموتو/masaru imoto) نے 1999ء میں اپنی شائع ہونے والی کتاب (message from water)میں بیان کی ہے۔انھوں نے پانی کو دو حصوں میں تقسیم  کیاایک پر (thank you, love & family)اور دوسرے پر(you made me sick) لکھا اور انھیں جما دیا گیا اور دیکھا  گیا کہ  فیملی والے پانی کے کرسٹلز بہت خوبصورت بنے ہیں جبکہ دوسرے پانی کے بہت خراب اور گندے بنے ہیں۔جب ہمارے الفاظ اتنی اہمیت رکھتے ہیں تو اس ذات کے الفاظ کی کیا تاثیر ہوگی جو ہر نقص سے پاک ہے اسی لئے تو کلام اللہ  کے  میں  ہمارے  لئےرحمت و شفاء  ہے جبکہ جادو منتر میں نقصان و قباحت اور تکلیف  پوشیدہ ہے۔

ہر عمل کے نتیجے میں کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں اسی  طرح جادو ہو جانے کے بعد بھی ہمیں علامات نظر آتی ہیں ۔اور یہ ہی علامات  ہمیں جادو کی شدت(intensity) ، نوعیت (nature/type) کا پتہ بتاتی ہیں۔ مثلا  جسمانی علامات (physical complaints)پٹھوں میں کھنچاؤ(muscles stiffness )، دل کی دھڑکن کا تیز ہونا(palpitation)،  بیزاری(irritability) ، سر درد (headache)،عدم دلچسپی(loss of interest) یا  جسم کے مختلف حصوں میں درد رہناوغیرہ شامل ہیں۔اور اس کے علاوہ عبادات میں خلل جیسے کہ نماز نہیں پڑھی جاتی،  قرآن کی تلاوت  اور ذکر الہی  سے دل میں گھٹن پیدا ہوتی ہو ۔

یہی علامات نفسیاتی عارضہ، ڈپریشن(depression) میں پائی جاتی ہیں جیسے جادو کسی کی فکری صلاحیتوں کو مفقود کرتا ہے اسی طرح نفسیاتی عارضہ سے بھی ہماری ذہنی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ یہاں  ایک بات واضح  رہے کہ جادو ایک عمل (process)ہے جبکہ نفسیاتی عوارض کسی بھی عمل کا نتیجہ ہو سکتے ہیں خواہ اس کا تعلق جادو  سے ہویاہمارے رویوں  سے، کسی چیز کے دور ہونے کا خوف ہو یا کسی چیز کی عدم دستیابی  کی پریشانی، وسوسے ہوں یا واہمے ۔اب جب ان کی بظاہر علامات میں اتنی مماثلت ہے تو ہمیں پتہ کیسے چلے گا کہ بندے  کو نفسیاتی مسئلہ ہے یا اس پہ جادو ہے یہ جاننا کافی مشکل ہے۔جادو ہو یا نفسیاتی خلجان دونوں ہی  نہ تو آنکھ سے دیکھےجاسکتے ہیں، نہ ہاتھ سے چھو ئے جاسکتے ہیں جس کی بنا پہ لیب  ٹیسٹ کے ذریعے  معلوم کر لیں کہ مسئلہ کیا ہے؟ اس کے لئے معالج کا فہیم اور باریک بین ہونا ضروری ہے تاکہ  وہ معاملہ کی تہ تک پہنچ کے  اس کی ٹھیک طرح تشخیص کر سکے۔ اگر کسی کو مسلسل تکلیف ہے لیکن مسئلہ  سمجھ نہیں آ رہا تو  کسی مستند راقی یا ماہر نفسیات کا رخ کرنا چاہئے۔راقی اس پہ رقیہ کرے گا اگر مریض کو سکون مل رہا ہے اور راقی کو بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اس میں کوئی جادو والی علامت نہیں سامنے نہیں آئی تو مسئلہ نفسیات  کا ہے کیونکہ قرآن کی تلاوت سے شیطان کو تکلیف ہوتی ہےجو مریض کی تکلیف سے ظاہر ہوتی ہے۔اور اگر  مسئلہ راقی کی بھی سمجھ سے باہر ہو اس کے تجربے میں ایسا کیس نہ ہو تو بجائے کسی اور مستند راقی کو(refer) کرنے سے ،یہ کہہ دیا جائے کہ اسے نفسیاتی مسئلہ ہے یا شادی کروا دو ٹھیک ہو جائے گا۔  اور نفسیاتی  مسئلہ شمار کرنے کے لئے اس کی باقی زندگی سے شواہد اکھٹے کرنے چاہئیں ، مریض کا گھر والوں سے رویہ کیسا رہتا تھا؟والدین کا آپس میں اور مریض کے ساتھ رویہ کیسا ہوتا ہے؟ بہن بھائیوں  کا آپس میں تعلق  کیسا ہے؟ اگر جواب سارے ہی معمول کے مطابق ہیں تو وجہ جادو ہو سکتا ہے ۔ہمارے یہاں لاعلمی کی بناء پر نفسیاتی بیماری کو ڈرامے بازی ، ڈھونگ اور جھوٹ سمجھا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے بیمار ی پہ توجہ نہیں دی جاتی اور معاملہ  سنگین صورتحال اختیار کر جاتا ہے۔ہمارے رویے  انسان کو اتنا شکستہ  دل(depressed) کر دیتے ہیں کہ بسا اوقات نو بت خود کشی تک جا پہنچتی ہے۔ایک ماہر نفسیات (carl rogers)کے مطابق  نفسیاتی شخص کو مریض نہیں کہنا چاہیے بلکہ اس کے لئے کلائنٹ (client)کہنا زیادہ موزوں ہے۔جب نفسیاتی شخص کے لئے بھی کلائنٹ استعمال کرنا چاہئے تو ہم کسی اور انسان کے لئے کیونکر استعمال کریں؟

معززین !جیسے بعض راقی حضرات کا رویہ بددل کرتا ہے اسی طرح ماہرین نفسیات  کا رویہ بھی کادل برداشتہ کرتا ہے۔پچھلے دور کی نسبت آج کے دور میں لوگوں میں ماہرین نفسیات کے ہاں علاج  رواج بنتا جا رہا ہے ،تو ماہرین نفسیات کو بھی ان کا اچھی طرح معائنہ کرنا چاہئے ان کی پچھلی زندگی (life history)کو  مدنظر رکھنا چاہئے اور پورے خلوص سے (tests administer) کرنے چاہئیں ۔ ماہرین نفسیات تو جن اور  جادو کے وجود سرے سے قائل نہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو سراسر ڈھونگ ہے  کوئی جادو وادو نہیں ۔ جیسا کہ اوپر قرآن نے جادو کی حقیقت کو واضح کر دیا ہے اب جادو برحق ہے تو ہے خواہ ہم ماہر نفسیات ہیں، سائنسدان ہیں، ڈاکٹر ہیں یا وکیل ہیں ہمیں قرآن پہ ایمان رکھنا ہے بس۔ ماہرین نفسیات کے پاس بھی ایک کلیہ موجود ہے جب کلائنٹ میں (progress) نظر نہ آئے ،اپنی (theories)کام کرنا بند کر دیں اور معاملہ کی نوعیت سمجھ سے بالاتر ہو تو یہ کہہ کے ہاتھ جھاڑ لئے جاتے ہیں کہ  اسکی مرضی پوری کر دیں ٹھیک ہو جائے گا، یا یہ خود ٹھیک نہیں ہونا چاہتا۔ کیا یہ مخلصانہ رویہ ہے۔۔۔؟

معززین!اب  ذرا  ان کے علاج پہ بھی اچٹتی نگاہ ڈالتے ہیں۔ ویسے تو قرآن جادو اور نفسیاتی عواض کے لئے (best healer) ہے لیکن بسا اوقات معاملے کی نوعیت  کے مطابق طریقہ علاج مختلف ہو جاتا ہے۔ جادو اور نقصان دہ چیزوں سے حفاظت کے لئے ہمیں  دعائیں و اذکار بتائے گئے ہیں۔ اور ہر وہ دم جائز ہے جو شرک پہ مبنی نہ ہو صحیح حدیث میں ہے کہ:

رسول اللہﷺ نے فرمایا : اپنے دم(کے الفاظ) مجھے بتاؤ، دم میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں شرک نہ ہو۔(مسلم#2200)

علماء کرام کے مطابق  وہ دم جائز ہے جس میں یہ تین شرائط پائی جائیں ۔ عربی زبان میں ہو، شرک نہ ہو، الفاظ بذات خود مؤثر نہیں بلکہ اللہ شفاء دینے والا ہے۔

جبکہ دوسری طرف  نفسیات میں  مختلف طریقوں سے مختلف مسائل کا حل کیا جاتا ہے۔ مسائل کو توجہ سے سن لینا ہی آدھے مسئلے کا حل شمار کیا جاتا ہے ۔مختلف طریقوں (therapies) کو  مد نظر رکھتے ہوئے  منفی سوچوں کو ان کی اصل (مثبت)ڈگر پہ لایا جاتا ہے۔

معززین!اپنے ناقص علم و تجربے کے بعد  میں یہ نتیجہ اخذ کر پائی ہوں کہ ہمیں جو بھی عارضہ لاحق ہے خواہ اس کا تعلق جادو سے ہے یا نفساتی الجھنوں سے، اس میں ہمارے نفس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جب بھی ہم نفس کے تابع ہوتے ہیں  تب ہی ہم  پہ شیطان مسلط ہوا ہے، خواہ وہ جادو کی صورت ہو یا نفسیاتی بیماری کی۔

اللہ بھی قرآن میں فرماتے ہیں کہ: 

"اور جو شخص رحمان کے ذکر سے  تغافل کرتا ہے ، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔"(سورہ الزخرف# 36) 

کوئی بھی مسئلہ کیوں نہ ہو ہمیں اپنا تعلق دیکھنا ہے  کہ ہمارا تعلق رحمان سے کتنا مضبوط ہےاگر پہلے کمزورتھا تو اب مضبوطی لائی جانی چاہئے۔ خود کو  ذکر الہی  کا عادی  بناناچاہئےجیسا کہ اللہ نے خود کہا ہے

"سن رکھو دلوں کا سکون تو اللہ کے ذکر میں ہے" 

استغفار اور شکرکو لازم و ملزوم کر لینا چاہئے،  بہت فضیلت ہے اس کی اللہ  بندے کو وہاں سے عطا کرتے ہیں جہاں سے  بندہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ہم نے نفس کو اپنے تابع بنانا ہے  شروع میں کافی دشوار لگے گا لیکن اپنی کوشش تمام کرنی ہے ۔ اللہ ہم سب کو ہر قسم کی بیماری سے  اپنی پناہ میں رکھے۔آمین

ازقلم:ام محمد

click the link below to read my more articles

https://razian97.blogspot.com/?m=1

Tuesday 8 September 2020

مصیبت پریشانی آزمائش

 سوال: اگر مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ مصیبت اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے یا اس کے درجات میں بلندی کیلیے ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کتاب و سنت میں مصیبتوں اور پریشانیوں کے -اللہ  تعالی کی حکمت اور قضا و قدر کے علاوہ-دو براہ راست اسباب ہیں:

1- انسان کی طرف سے کیے جانے والے گناہ اور نافرمانیاں، چاہے یہ گناہ کفر کی حد تک ہوں یا پھر عام گناہوں یا کبیرہ گناہوں سے تعلق رکھتے ہوں، چنانچہ جزا اور فوری سزا کے طور پر اللہ تعالی کی طرف سے گناہ گار شخص کو مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ )
ترجمہ: آپ کو کوئی بھی نقصان پہنچے تو یہ تمہاری اپنی وجہ سے ہے۔[النساء:79]
مفسرین کہتے ہیں: یعنی: آپ کے گناہوں کی وجہ سے ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
( وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ)
ترجمہ: اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے اپنے اعمال  کی وجہ سے ہے، [حالانکہ] اللہ بہت سے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ [ الشورى:30 ]
دیکھیں: "تفسیر القرآن العظیم" (2/363)

اور انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب اللہ تعالی کسی بندے کیساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے، اور اگر کسی بندے کیساتھ برا ارادہ فرمائے تو اسے گناہوں کی سزا دنیا میں نہیں دیتا، تا کہ قیامت کے روز اسے مکمل سزا ملے)
اس روایت کو ترمذی: (2396) نے  روایت کیا ہے اور حسن کہا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے سے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔

2- دوسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے صابر اور مؤمن بندے کے درجات بلند کرنا چاہتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی اسے مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تا کہ وہ اللہ تعالی کی آزمائش پر راضی ہو اور صبر کرے ، نتیجے میں اللہ تعالی اسے آخرت میں صابرین کے اجر سے نوازے، اور اپنے ہاں اسے کامیاب لوگوں میں لکھ دے، یہ بات مسلمہ ہے کہ انبیائے کرام اور نیک لوگوں کو بھی آخر دم تک مصیبتوں کا سامنا رہا، اللہ تعالی نے ان کیلیے ان مصیبتوں کو جنتوں میں بلند درجات حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا، یہی وجہ ہے کہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب انسان کیلیے اللہ تعالی کے ہاں کوئی ایسا درجہ مختص ہو جسے پانے کیلیے انسان کے اعمال ناکافی ہو تو اللہ تعالی اس کو جسم، مال، یا اولاد کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے)
ابو داود: (3090) اسے البانی نے سلسلہ صحیحہ : (2599)میں  صحیح کہا ہے۔

اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جتنی آزمائش کڑی ہو گی اجر بھی اتنا ہی عظیم ہوگا، اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کی آزمائش فرماتا ہے، چنانچہ جو اللہ تعالی کی آزمائش پر راضی ہو جائے تو اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جو اللہ تعالی کی آزمائش پر ناراضگی کا اظہار کرے اس کیلیے اللہ تعالی کی طرف سے ناراضگی ہوتی ہے)
اس حدیث کو ترمذی : (2396) روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا، نیز شیخ البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ: (146) میں صحیح قرار دیا ہے۔

مصیبتوں میں مبتلا کرنے کے مذکورہ دونوں اسباب عائشہ رضی اللہ عنہا کی درج ذیل حدیث میں یکجا جمع ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی بھی مسلمان کو کوئی بھی کانٹا یا اس سے بڑی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے، یا اس کا گناہ مٹا دیتا ہے)
بخاری: (5641) مسلم: (2573)

پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ دونوں اسباب یکجا ہو جاتے ہیں، اور ان کے یکجا ہونے کی مثالیں الگ الگ ہونے سے زیادہ ہیں: جیسے کہ آپ کو عام دیکھنے میں ملے گا کہ: جسے اللہ تعالی کسی مصیبت میں مبتلا فرمائے اور وہ اس پر صبر و شکر کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور جنت میں  درجات بلند کر دیتا ہے ، نیز اسے صابرین کے اجر سے بھی نوازتا ہے۔

بالکل اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالی مصیبتوں میں اس لیے مبتلا فرماتا ہے تا کہ وہ جنت میں اپنے لیے مختص درجے تک پہنچ سکے تو اس کے بھی گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، نیز اس مصیبت کو دنیاوی سزا شمار کر لیا جاتا ہے اور آخرت میں اسے مزید سزا نہیں ملے گی، جیسے کہ کچھ انبیائے کرام کیساتھ ایسا ہوا، مثال کے طور پر: آدم علیہ السلام اور یونس علیہ السلام، کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو جنت سے بے دخل کیا، اور یونس بن متی علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں مبتلا کیا، تو اللہ تعالی نے دونوں کے درجات اس لیے بلند فرمائے کہ انہوں نے ان پر صبر کیا اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھی، چنانچہ ان کیلیے یہ مصیبت یونس اور آدم علیہماالسلام سے سر زد ہونے والی غلطی کا کفارہ بن گئی۔

آپ کی مزید رہنمائی کیلیے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دنیاوی سزا اخروی سزا سے منسلک ہوتی ہے جدا نہیں ہوتی، نیز مذکورہ دونوں اسباب کا تذکرہ یکجا متعدد صحیح احادیث نبویہ میں موجود ہے، جیسے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن لوگوں کی آزمائش سخت ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انبیائے کرام کی، ان کے بعد جو جس قدر انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے والا ہوگا انہیں اسی قدر آزمائش میں ڈالا جائے گا، چنانچہ ایک آدمی کو اس کی دینداری کے مطابق ہی آزمایا جاتا ہے، جتنی دینداری ٹھوس ہوگی آزمائش بھی اتنی ہی سخت ہوگی، اور اگر اس کی دینی حالت پتلی ہوگی تو اس کی آزمائش بھی  کم ہوگی، حتی کہ آزمائشیں انسان کے گناہوں کو مکمل طور پر مٹا دیتی ہیں اور انسان زمین پر چلتا پھرتا ہے اور اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا)
ترمذی: (2398) نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا ۔

لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ مذکورہ دونوں اسباب میں سے کوئی ایک سبب دوسرے کی بہ نسبت زیادہ عیاں ہو، اور اس فرق کو مصیبت سے متعلقہ دیگر قرائن اور شواہد کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے:

چنانچہ اگر مصیبت زدہ شخص کافر ہو تو ایسی صورت میں اس کی آزمائش بلندیِ درجات کیلیے نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ قیامت کے دن کافر کی نیکیوں کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی وزن نہیں ہوگا، لیکن اس مصیبت کی وجہ سے دیگر لوگوں کو نصیحت ہو سکتی ہے کہ وہ مصیبت زدہ کافر کو دیکھ کر سیدھے ہو جائیں اور کافر جیسی غلطی خود نہ کریں، بسا اوقات کافر کیلیے پیش آمدہ مصیبت دنیاوی عذاب کا حصہ ہوتی ہے جبکہ آخرت میں ملنے والا عذاب اس کے علاوہ ہوگا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لا يَعْلَمُ فِي الأرْضِ أَمْ بِظَاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ [33] لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الآخِرَةِ أَشَقُّ وَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ )
ترجمہ: [الرعد :33-34]

اور اگر مصیبت زدہ شخص مسلمان لیکن گناہ کر کے دوسروں کو بتلانے والا ہو یا ایسا فاسق ہو جس کے فسق کا سب کو علم ہو تو ایسی صورت میں پیش آمدہ مصیبت گناہ مٹانے کیلیے دی جانے والی جزا اور سزا  زیادہ محسوس ہوتی ہے؛ کیونکہ درجات کی بلندی سے قبل گناہوں کا خاتمہ پہلے کیا جاتا ہے، اور گناہ گار کو درجات کی بلندی سے پہلے گناہوں کی صفائی اور کفارے کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوسری جانب اگر کوئی نیک عبادت گزار مسلمان مصیبت زدہ ہو ، اس شخص نے کبھی اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کی ہو ہمیشہ اللہ تعالی کی بندگی میں مگن رہتا ہو، حمد و شکر زبان پر جاری رہے، اللہ سے لو اور ناتا جوڑ کر رکھے، تو ایسے مسلمان کے متعلق یہی زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ : پیش آمدہ مصیبت  درجات کی بلندی کیلیے ہے۔

جتنے بھی لوگ ہیں یہ زمین پر اللہ تعالی کے گواہ ہیں ، چنانچہ اگر کسی شخص کی نیکی اور تقوی کا علم ہو اور پھر اسے مصیبت زدہ پائیں تو وہ مصیبت پر صبر کرنے کی صورت میں اللہ تعالی کی جانب سے بلندیِ درجات  کی خوشخبری اور نوید سنا سکتے ہیں۔

لیکن اگر مصیبت زدہ شخص نے جزع فزع سے کام لیا تو ایسی صورت میں اس مصیبت کو بلندی ِ درجات کا سبب نہیں سمجھا جائے گا؛ کیونکہ اس شخص نے اللہ تعالی کے فیصلے پر بے صبری اور ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے، تو ایسی صورت میں یہ مصیبت جزا اور سزا سے تعلق رکھے گی۔

کچھ نیک لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ: "مصیبتیں اس وقت سزا ہوتی ہیں جب مصیبت آن پڑنے پر بے صبری کا مظاہرہ ہو اور لوگوں کے سامنے شکوی شکایت کی جائے"

جبکہ مصیبت گناہوں کا کفارہ اس وقت بنتی ہے جب مصیبت پڑنے پر شکوی شکایت نہ کی جائے بلکہ صبر کا مظاہرہ کیا جائے، آہ و بکا، اور دیگر احکاماتِ الہیہ کی ادائیگی میں بوجھ محسوس نہ کیا جائے۔

نیز مصیبتیں بلندیِ درجات کا سبب اس وقت بنتی ہیں جب مصیبت پڑنے پر اللہ تعالی کے اس فیصلے کو مکمل رضا مندی  سے قبول کرے، دل مطمئن رہے، اور تقدیری فیصلوں پر افراتفری کا شکار نہ ہو، یہاں تک کہ تقدیری فیصلے ٹل جائیں" انتہی

مذکورہ باتیں حتمی نہیں ہیں بلکہ قرائن و شواہد ہیں انہیں بروئے کار لا کر انسان مصیبتوں اور تکلیفوں کی جانچ پڑتال کر سکتا ہے، لیکن ان کے بارے میں حتمی بات نہیں کی جا سکتی نہ تو اپنے بارے میں اور نہ ہی کسی اور کے بارے میں۔

عین ممکن ہے کہ سابقہ لمبی چوڑی تفصیل سے زیادہ اہم بات یہ ہو کہ:

انسان کیلیے قابل غور و فکر عملی پہلو یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی مصیبت اس وقت تک خیر و برکت کا باعث ہے جب تک مصیبت پر صبر کرے اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھے، اور دنیا کی کوئی بھی مصیبت اس وقت تک شر اور نقصان کا باعث ہے جب تک وہ جزع فزع سے کام لے۔

چنانچہ اگر انسان اپنے آپ کو مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت ڈالے، اللہ تعالی کے فیصلوں پر اظہار رضا مندی کرے تو مصیبت کا سبب علم میں ہو یا  نہ ہو اس سے اُسے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے بلکہ بہتر طریقہ یہی  ہے کہ ہمیشہ اپنے آپ کا محاسبہ کرے، اپنے اندر کی کمی کوتاہی کو تلاش کرے، جہاں خلل پیدا ہوا ہے اس ڈھونڈے کیونکہ ہم سب غلطیوں کے پتلے ہیں، کون ہے جو اللہ تعالی کے بارے میں سستی اور کوتاہی کا شکار نہیں ہے؟  اگر جنگ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی مخالفت کی پاداش میں اللہ تعالی مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں مشرکوں کے ہاتھوں شہید کروا سکتا ہے حالانکہ  وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تھے، انبیائے کرام اور رسولوں کے بعد افضل ترین شخصیتوں کے مالک تھے، تو ایک عام آدمی ہر مصیبت  کے بدلے میں بلندیِ درجات کا خواہش مند کیسے ہو سکتا ہے؟!!

ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ جس وقت سخت اندھیری اور بادلوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھتے تو کہتے: "یہ سب میرے گناہوں کی وجہ سے ہے، اگر میں یہاں سے چلا جاؤں تو تمہیں اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا"

اگر ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ کا یہ حال تھا تو ہماری کیا حالت ہونی چاہیے؟!

ان تمام باتوں سے ہٹ کر اہم ترین بات یہ ہے کہ:

انسان اللہ تعالی کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھے، ہر حالت میں  اللہ تعالی کے بارے میں اچھی سوچ ذہن میں لائے، کیونکہ وہی بخشنے والا اور ڈر کا مستحق ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہم پر اپنی رحمت فرمائے اور ہمیں بخش دے، ہمیں کار آمد علم سکھائے، اور مصیبت پڑنے پر ہمیں اجر سے نوازے، بیشک وہی سننے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے

بشکریہ islamqa.com

Monday 31 August 2020

صنفی امتیاز


آخر صنفی امیتاز/تعصب کیوں؟

از قلم : ا ٌمّ ِمحمد


میں نے اپنے ارد گرد حالات کی تلخیوں کو جھیلتی بہت سی لڑکیوں کو دیکھا جو ناچار صنفی امتیاز کا شکار معلوم ہوتی تھیں۔ مخالف جنس کے لیے ان کے دلوں میں اتنی کڑواہٹ اور اتنی نفرت دیکھ کے مجھے خیال گزرا کہ اس پہ ضرور سوچوں گی ۔ اس کی وجوہات تک پہنچنے کی کوشش کروں گی۔ جتنا اور جیسے ہو سکا لکھوں گی۔ آتش نمرود اگرچہ چڑیا کی کوشش سے نہ بجھ سکی تھی مگر اس نے اپنی بساط بھر حصہ ڈال دیا تھا۔

میں نے ایسا موضوع لکھنے کے لیے چنا جس کا اگر ایک سرا ہاتھ آتا تو دوسرا چھوٹتا۔ ایسا بھی وقت آیا جب مجھے لگا میں نہیں لکھ سکتی مگر اللہ کا کرم ہوا آخر قلم چل ہی پڑا۔  اگرچہ میں کافی عرصے کی تگ و دو کے بعد  لکھنے کے قابل ہوئی۔ جس بات نے مجھے زیادہ اکسایا وہ چھوٹی بہن کی بات تھی۔ ایک دن میرے پاس آئی اور کہتی کہ بھائی اور بھابھی اپنی بیٹی کے رونے پہ اسے ڈانٹ کے چپ کرواتے ہیں یا کسی چیز کی فرمائش کرے تو اسے ویسے ٹرخا دیتے ہیں لیکن اس کا چھو ٹا بھائی اگر مانگے تو اسے فوراً پورا کر دیتے ہیں آپی ایسا کیوں کرتے ہیں ۔ بیٹیوں سے ویسا سلوک کیوں نہیں کرتے جیسا بیٹوں سے کرتے ہیں؟    مرد و زن میں تعصب کی سرد جنگ ہے۔ کہ ابن آدم موجودہ معاشرے کی اخلاقی غلطیوں کو بنت حوا کی ناکام تربیت کا کہہ کر خود بری الزمہ ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔  یہ صنفی امتیاز و تعصب ہمارے معاشرے میں بری طرح اپنے خونخوار پنجے گاڑ چکا ہے۔ دونوں اصناف ( مرد و زن) کو اپنی برتری کا لوہا منوانے کے لئے جو طریقہ کار گر نظر آتا ہے وہ اپنا لیتے ہیں خواہ اخلاقیات کا اس میں دم گھٹ جائے یا سرے سے ہی معدوم ہو جائیں۔ اسکا کسی کو احساس تک نہیں رہتا۔ کبھی خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پہ مارچ کرتی نظر آتی ہیں تو کبھی مرد اپنی  ذات کو اعلیٰ و ارفع ثابت کرنے کے لئے جابرانہ سلوک کرتے نظر آتے ہیں۔  میری کوشش ہے کہ جہاں تک اصلاح ہو سکتی  وہ کر سکوں تاکہ اس کار خیر میں تھوڑا سا میرا بھی ہاتھ ہو۔

یہاں ذکر ہوا ہے تحریک حقوق ِنسواں   کا، ہمیں اس مہم کی تاریخ کے بار ے میں تھوری آگاہی  ہونی چاہیئے کہ آیا یہ ناسور ہمارے درمیان کیسے وقوع پذیر ہوا؟ جس نے معاشرے میں اپنے زہر سے اتنی کڑواہٹ پھیلا دی ہے۔ آج کی عورت ہی اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑ رہی بلکہ یہ صدیوں پرانی ریت ہے جسے کچھ بے راہ لوگ وراثت کی طرح اپنی نسلوں میں منتقل کرتے آئے ہیں۔ معززین! اس کا ارتقاء 1700 ء سے پہلے ہوا تھا ۔ جسے ایک فرانسیسی مصنفہ عورت نے اپنی ایک کتاب میں لکھا تھا۔ اس کے بعد مغرب اور کچھ دوسرے پسماندہ  میں  آواز اٹھائی گئی جس میں عورتوں کی تعلیم، سیاسی حقوق جیسے ووٹ دینا اور معاشرتی آزادی تھی، یوں ایک منظم و مربوط تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ جو کہ آج تک دھنک رنگوں کی صورت میں ہمارے معاشرے میں جنم لے رہا ہے ۔ایسی صورت میں  عورت  مرد کے شانہ بشانہ تو چلنے لگی مگر اپنی اخلاقی و فطری قیود سے بھی آزاد ہوگئی۔ہمارے یہاں بھی کچھ مغرب کی دلدادہ اور  کچھ احساس کمتری کی حامل خواتین مغربی عورتوں کی دیکھا دیکھی اپنی جدو جہد کا لائحہ  عمل بناتی ہیں اور اس پر عمل کی پر زور کوشش کرتی ہیں۔  Christine de pizan

قارئین! ذرا اب صنفی امتیاز کے بارے میں جان لیں کہ آیا یہ کس بلا کا نام ہے؟ صنفی امتیاز سے مراد کسی شخص کی جنس یا صنف کی بنیاد پر تعصب یا امتیاز ہے۔اور ایک ایسا تصور بھی ہو سکتا ہے جس میں ایک صنف کو فطری  یا پیدائشی طور پر دوسری صنف سے بہتر سمجھا جائے۔جو کہ ہمارے معاشرے میں معمولی بات سمجھی جاتی ہے ابن آدم کو بنت حوا پہ فوقیت دی جاتی ہے ۔یہ امر کسی  تیسرے کے رویے سے سرانجام پاتا ہے یہ افرا   ط و تفریط  ہمارے والدین ، معاشرہ یا کسی بھی شخص   کے ہاتھوں سر زد ہو سکتی ہے۔ہمیں جان لینا چاہئیے کہ کسی بھی شخص کو جنس،رنگ و نسل کی بنیاد پہ کوئی  درجہ حاصل نہیں ہے۔ سب سیدنا آدم ٖٖٖؑ کی اولاد سے ہیں اللہ کے نزدیک وہی برترہے جس کا تقویٰ زیادہ ہے۔آئیے ذرا اس کو اپنے ماحول سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ صنفی امتیاز کی ابتدا ہمارے  گھروں سے ہوتی ہےجب کسی ہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے تو خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا بسا اوقات تو سوگ کی سی کیفیت بنا لی جاتی ہے۔اور بیٹی کی والدہ کو خوب کھری کھوٹی سنائی جاتی ہے جبکہ بیٹے کی ولادت پہ سارےخاندان میں میٹھایاں  تقسیم کی جاتی ہیں۔اگر بھائی چھوٹا ہے تو اسے چھوٹے ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت  دی جاتی ہے اور اگر وہ بڑا ہے تو اسکی عزت کی بناء پر اسے خاص مقام دیا جاتاہے۔ گویہی انداز دینا کے ہر شعبے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔مرد کو  مرد  ہونے کی وجہ سے کافی مرعات دی جاتی ہیں اور جہاں بات عورت  کی آتی ہے تو  اسے ناقص العقل خیال کرتے اسے اس کے خیالات سمیت  چپ کروا دیا جاتا۔ یہی غیر منصفانہ تقسیم بعد میں معاشرتی ناسور(تعصب) بن کے سامنے آتی ہے۔ 

معززین!  یہاں ذکر جنسی تعصب کا ہوا ہےجسے ہم اسی تصویر کا دوسرا رخ بھی  کہہ لیں تو غلط نہ ہوگا۔ہم یہاں اس کی بھی  وضاحت بھی پڑھ لیتے ہیں کہ تعصب کا مطلب کیا ہے اور کس طرحد تک ہمارے معاشرے میں طول پکڑ چکا ہے۔تعصب کے لغوی و اصطلاحی معنی پٹی باندھنا، مقابلہ کرنے کے ہیں۔ تعصب  کئی اقسام کا ہوتا ہے مثلا مذہبی، نسلی، معاشرتی، قومی۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں ہم ذکر کریں گے جنسی تعصب کا۔تعصب کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان دوسرے انسان کی تذلیل کرتا ہے، اپنے مخالف کو کمتر گردانتا ہے۔جس سے دوسرے کی عزت نفس مجروح  ہوتی ہے۔انسان حقوق العباد میں غفلت برتتا ہے بسا اوقات عمدا                       ادا   نہیں  کرتا۔ تعصب اپنے ساتھ اور بہت سی بیماریوں  کو کارندے بناکر لاتا ہے جیسے حسد و بغض،الزام و بہتان تراشی اور افتراء پردازی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔آئیے اب ہم  اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس قدر زبوں حالی کا شکار ہے۔ کوئی بھی بات یا سوال   بحیثت  لڑکی کسی مرد سے کرے تو چپ کروا دیا جاتا ہے خاتون یہ آپ کا  کام نہیں آپ گھر کا ہانڈی چولہا کریں  اور اگر یہی سوال ایک لڑکے کے طور پر کیا جائے تو اس کا مدلل جواب دیا جاتا ہے۔کیا یہ کھلا تعصب نہیں؟ عصبیت میں صرف ان لوگوں کا شمار نہیں ہوتا جو دین کا علم نہیں رکھتے بلکہ یہاں چند ایک احادیث پڑھے جو خود کو عالم سمجھنے کی کوتاہی کر بیٹھتے ہیں وہ بھی خواتین  کے تمسخر و تحقیر میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔احادیث سے اپنی مرضی کا مفہوم نکال کر  عورت کی تحقیر کرتے ہیں مثال کے طور پہ عورت ہوتی ہی کم عقل ہے اسی لیے خاموش رہا کرو، عورت کو تو پیدا ہی ٹیڑھی پسلی سے کیا ہےاسی لیے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔اب بات کرتے ہیں عورت میں کس قدر اور کس قسم کا تعصب پایا جاتا ہے؟ مرد تو ہوتے ہی ظالم ہیں، ہمیں قید کر نے پہ ہی خوش ہیں، مرد کبھی ہماری بات نہیں سمجھ سکتے۔مردوں کو اپنے علاوہ کسی سے سروکار نہیں ہوتا۔۔۔۔اسی طرح کی سوچ ہمارے دماغوں میں بھری ہے۔ خدارا ایک آدمی کا فعل پوری صنف پہ لاگو نہیں ہوتا، ہر کوئی دوسرے سے مختلف ہے۔

معززین! کسی بھی معاشرے کی اخلاقی تباہی و تنزلی کا وقت تب شروع ہوتا ہے جب وہاں کے باسی اپنی تعلیمات و اقدار سے انحراف کرتے ہیں۔ اور اپنے خالق حقیقی کی طے کردہ حدود و قیود سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ نے ہر چیز کا ایک نظام مقرر کر دیا ہے کائنات  میں موجود ہر ستارہ  و سیارہ اپنے مدار میں گردش کرتا ہے اور جس دن یہ اپنے مدار سے باہر آئے آپس میں ٹکراؤ ہوگا اور تباہی(قیامت)مقدر ہوگی.تاریخ گواہ ہے جب بھی اولاد آدم نے اپنے متعین راستوں کو چھوڑا ہے یا تو تباہی سے ان کا پالا پڑا ہے یا انھیں خلاؤں میں لٹکتا چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ کہیں کے نہ رہے۔ہمارا تباہی سے بچنا اس وقت ممکن ہوگا جب ہم اسلام کی  متعین کردہ حدود کی پاسداری  کریں گے۔ اسلام  ایک مکمل ضابطہ حیات  ہے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اس سے ہٹ کر چلیں  اور ہمیں فلاح  و کامران بھی ملے ۔اللہ نے تو ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی اس صنفی امیتاز و تعصب کا قلع قمع کر دیا تھا۔

جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی  ارشاد فرماتے ہیں کہ:"اے لوگو! بے شک ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمیں مختلف قوموں اورخاندانوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔یقین رکھو کی اللہ سب کچھ جاننے والاہر چیز سے باخبرہے"۔(الحجرات#13) 

اس آیت سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ تقوی واحد چیز ہے جس کی بنا پر ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے اور تقوی کا تعلق بندے اور اللہ کے درمیان پوشیدہ ہے کوئی تیسرا اس کو نہیں جان سکتا۔اللہ نے دنیوی زندگی گزانے کے لیےکچھ طریقہ کار وضع کیے ہیں جن میں کبھی کسی ایک کو دوسرے پہ فوقیت دی ہےجیسے معاش کی ذمہ داری مرد پہ ڈالی گئی ہےاور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کی بنا پر اللہ نے  فوقیت دی ۔ 

جبکہ دوسری طرف  اللہ نے عورت (ماں) کے حق کو باپ کے حق  پہ مقدم رکھا ہے،  "ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا میرے حسن صحبت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا تیری ماں، اس نے پوچھا   پھر کون ؟فرمایا تیری ماں ، اس نے عرض کیا پھر کون ؟ ارشاد ہوا تیری ماں،  اس نے عرض کیا  پھر کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ "۔(صحیح بخاری: 5971)

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: "مرد عورتوں پہ نگہبان اس لئے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہےاور اس لئے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کئے"۔(النساء#34) 

جبکہ دوسری جگہ اللہ نے عورتوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہےاللہ فرماتے ہیں کہ: عورتوں کے لئے بھی معروف طریقہ پر ویسے حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں البتہ مردوں کو ایک درجہ ان پہ فضیلت حاصل ہے(البقرہ#228)  ۔ "

اللہ تعالیٰ سورۃ حم السجدہ #46 میں فرماتے ہیں کہ : جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہوگی اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہرگز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں شرک کی نفی کے بعد جو بات ذکر فرمائی وہ یہ تھی عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک رکھو۔ اللہ نے عورت کو  گنتی کے احکام کا   پابند کر دیا جبکہ مردوں کو عورتوں کے ہر معاملے  میں ڈرنے کا حکم دے دیا۔خواہ کوئی بھی فیصلہ ، حکم کچھ بھی ہو اس میں اللہ کا ڈر شامل ہو کہ اللہ یہاں سے نہ ہماری پکڑ کر لے یا وہاں سے سر زنش نہ ہو جائے۔ہمارے معاشرے میں بیٹی کو زحمت خیال کیا جاتا ہے اور بیٹے  کی آمد پہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اسلام نے ہمارے اس رویے کو ترک کردیا ، بلکہ اچھی پرورش کرنے والے کو جنت کی بشارت بھی دی۔ بیٹی کو رحمت قرار دے دیا گیا ۔

ارشاد بنویﷺ ہےکہ جس شخص  کی دو یا تین بیٹیاں ہوںاور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے(اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کر دے)تو میں  اور وہ شخص جنت میں اس  طرح داخل ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاںملی ہوئی ہیں۔(ترمذی) 

جبکہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف سے کام لو(متفق علیہ)۔ 

رسول اللہ ﷺ تو پیکر شفقت تھے پھر عورت کیونکر اس شفقت سے محروم ہوتی ؟ رسول اللہ ﷺ نے تو عورت کو آبگینے (کرسٹل)کہا ہے۔ اور ایسی چیزوں کو بہت احتیاط سے محفوظ مقام پہ رکھا جاتا ہے ہلکی سی ٹھیس بھی ان کے لیے نقسان دہ  ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے عورت کو محفوظ مقام بھی بتا دیا،

 ارشاد باری تعالی ہےکہ: اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو    (الاحزاب#33)۔ 

پہلی بات تو یہ ہے کہ مرد کو چاہیے کہ وہ عورت کی ضروریات کا خیال رکھے اور اگر کسی مجبوری کے تحت باہر نکلنا پڑے بھی تو اپنی زینت کو چھپا کے نکلے۔


رب نے تجھے نوازا ہے احترام کے رشتوں سے

تو ہر روپ میں قابل احترام ہے بنت حوا

ہمیں اپنے فرائض پہ نظر رکھنی چاہئے حقوق خود بخود ملتے جائیں گے۔ مرد کو چاہئے جو فرائض اس کے ذمہ ہیں وہ خالص اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے ان کو پورا کرے اسی طرح عورت بھی ادا کرے ۔ نہ تو  فطری و مجموعی  طور پر ابن آدم جابر ہے اور نہ بنت حوا بے راہ روی کا شکار ہے ابن آدم نے اپنے فرائض چھوڑ دئیے۔ اپنا کردار کھو دیا تو بنت حوا نے اپنے حقوق کے لئے لڑنا شروع کر دیااور  اپنی نسوانیت کھو دی۔مرد و زن میں فطری فرق  ہےاور اسی فطری فرق کو لیے اپنی اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ہمارا معاشرہ اس وقت ہی اخلاقی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا جب ہم ایک دوسرے کو ان کی فطرت سمیت سمجھنے کے قابل ہوگئے۔ ہمیں یہ زندگی جینے کے لئے نہیں جینا بلکہ اگلی زندگی جینے کے کئے جینا ہے ۔ جو ہم عمل کریں گے اس کا جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ساری بات کا نچوڑ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق گزارنا شروع کر دیں سارے معاملات ٹھیک ہوتے جائیں گے ان شاءاللہ۔

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش

خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن 

اللہ ہمارے احوال پہ رحم فرمائے اور ہمیں اپنی زمہ داریاں سمجھنے اور خوش اسلوبی سے سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

وماعلینا الاالبلاغ۔

تربیت اولاد

 تربیت اولاد 

تربیت اولاد پہ آپکو بہت سارا مواد پڑھنے کو ملے گا لیکن میں نے تھوڑا مختلف انداز اختیار کرنے کی کوشش کی ہے امید کرتی ہوں یہ آرٹیکل ہمیں ایک نئی سوچ ضرور دے گا ان شاءاللہ۔۔۔۔۔ دعاؤں کی طالب *ام محمد*

بچے تو ماں باپ کے باغ کے پھول ہوتے ہیں۔ ان کی خوشبو میں ہی گھر مہکتے ہیں۔ بچوں کے وجود کے بنا گھر ویران دکھائی دیتے ہیں۔ بچوں کی کلکاریاں پریشانی گھٹاتی اور خوشی بڑھاتی ہیں۔ گویا بچے اللہ کی نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہیں۔دعا ہے کہ جن والدین کو ان خوبصورت پھولوں سے نوازا ہے ان کی مہک ہمیشہ برقرار رہےاور باعث تسکین بنی رہے آمین ۔ اور جو اس نعمت سے محروم ہیں اللہ انھیں صالح اولاد عطا فرمائے آمین 

معزر قارئین! اگر آج کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں علم تو کافی مقدار میں ملے گا لیکن عملی جھلک شاذ و نادر ہی آنکھوں کو میسر آتی ہے۔خواہ وہ زندگی کا کوئی بھی پہلو کیوں نہ ہو ؟ اب یہاں بات ہو رہی ہے اولاد کی تربیت کی تو اس میں بھی ہمیں پڑھے لکھے والدین تو واسطہ پڑتا ہے لیکن ان کی تربیت بادی النظر ہی ہوتی ہے۔ہم نے کبھی سوال اٹھایا کہ آج کل ہمارا معاشرہ بے راہ روی کا شکار کس لئے ہے؟ کیوں ہر دوسرا نوجوان ڈپریشن کا شکار ہے؟ کیوں ہمارے بچے ذہنی انتشار کا شکار ہیں؟ معزرین! ہم نے تربیت کو کچھ اور ہی رنگ چڑھا دیا ہے۔ فرد کر معاشرے کی اساس کہا گیا ہے فرد فرد سے مل کر معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔ اور ایک فرد کو اچھا انسان بنانے کے لئے تربیت بنیادی کردار کی حامل ہے۔ آخر ہمیں کونسے عوامل اپنانے چاہیں جو ہماری اولاد کی تربیت میں معاون ہوں، جو ہمارے لئے فائدہ مند ہوں اور آخرت میں بھی جوابدہی آسان ہو جائے۔ اولاد کی تربیت ایک خاصا کٹھن مرحلہ شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ نے بہت بڑی ذمہ داری اولاد کی صورت میں دی ہے۔   

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پہ پیدا ہوتا ہے۔لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری#1359)

بچے کی تربیت کا آغاز تو ماقبل پیدائش شروع ہو جاتا ہے۔ جب حمل(fetus)  کی عمر چار ماہ کے قریب ہوتی ہے تو فرشتہ اس میں روح پھونک دیتا۔ ' حدیث کے مطابق وہ اسکی عمر ، اسکا بخت گویا وہ خوش بخت ہے یا بد بخت ' لکھ کر لے جاتا ہے ۔  اگر یوں کہہ لیا جائے کہ خوش بختی اور بد بختی کسی حد تک والدہ کے اعمال پہ منحصر ہوتی ہے۔ جس طرح بچہ جسمانی بڑھوتری کے لئے ماں کے رحم و کرم پہ ہوتا ہے اسی طرح ذہنی سوچ اور فطرت بننے میں بھی ماں کا کردار شامل ہوتا ہے۔جس انداز میں ماں سوچے گی اسی انداز میں بچے کی سوچ نشونما پائے گی۔  اگر ماں جھوٹ کی عادی ہے تو اس کی اولاد بھی  یہ خاصیت پائے جانے کے امکان موجود ہوں گے الا یہ کہ اللہ اپنا رحم کرے اور بچے کو ٹھیک راہ دکھائی دے۔اسی لئے  پرانے وقتوں کی  نانیاں،دادیاں عورت کو خوش رہنے ، اچھا سوچنے اور قرآن کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی تلقین کرتی تھیں۔ یہ انسان کی فطرت بننے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کی کسی چیز کے بارہ کیا رائے ہے اسی عرصہ میں طے پاتا ہے۔ بات بس یہاں پہ ہی نہیں اختتام پا جاتی بلکہ یہاں  اس تربیت کا آغاز ہوتا ہے جس کا ذمہ دار اللہ نے والدین کوبنایا ہے ۔ والدین کے ہاتھوں اچھا یا برا ماحول دے  دیا جاتا ہے۔ 

 حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اولاد کی تربیت اس طرح نقل کی ہے: والد کے ذمہ اولاد کا حق ہے کہ اسکا اچھانام رکھے اوراسے دودھ پلانے والی کے ساتھ احسان کرے اور اسے اچھا ادب سکھائے۔

مذکورہ بالا حدیث میں لفظ والد کا استعمال ہوا ہے گویا کہ والد کے ذمہ بھی اولاد کی تربیت اتنا حق رکھتی ہے جتنا کہ ماں کی۔  بلاشبہ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا گیا ہے لیکن معززین ! اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باپ بری ہیں ۔ باپ صرف پیسے لا کے دینے کی حد تک نہیں بندھے ہوئے انھیں ادب سکھانے کی بھی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اپنے سلف صالحین کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو وہ اپنی اولاد کی تربیت کے لئے خاصے سنجیدہ تھے۔ اگر ان کی اولاد کوئی نافرمانی کر بیٹھتی تو وہ لعن طعن اور احسان جتلانے کے بجائے کثرت سے استغفار کرتے اور نوافل کا اہتمام کرتے۔ 

اولاد کے ساتھ بے حد شفیق اور نرم رویہ رکھنا چاہئے۔ ان سے پیار کریں انھیں دکھائیں کہ ان سے زیادہ عزیز اور کوئی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پیکر شفقت و رحمت تھے۔ 

’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اللہ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

نفسیات بھی اس بات کی قائل ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد اگراسے   بوسہ دیا جاتا ہے تو اس میں "feeling of acceptance"  آتی ہے وہ خود کو بااعتماد محسوس کرتا ہے کہ مجھے کھلے دل سے اس دنیا میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔ یہ عمل بعد میں پیدا ہونے والے مسائل کو روکتا ہے۔

اولاد کی تربیت میں ماں کا خاصا کردار شامل ہوتا ہے۔ جیسے مائیں سکھائیں گی ویسے ہی بچے سکھیں گے۔ آج کے دور میں ہم نے پڑھی لکھی مائیں تو دیکھی ہیں جو کہ اپنی اولاد کو اردو، انگریزی سکھا دینے کو ہی تربیت کل سمجھتی ہیں۔ ان کی تربیت ہی یہی ہوتی ہے کہ ان کا بچہ فر فر انگریزی بولتا ہے۔  اچھا پہنتا ہے دوسرے بچوں میں پر اعتماد نظر آتا ہے۔اس بات پہ ایک دوسرے پہ فخر کیا جاتا ہے۔ یہ تربیت کا ایک پہلو تو ہوسکتا ہے لیکن اسکو ہی تربیت کانام دے دینا قطعاً درست نہ ہوگا۔ تربیت زبانیں سکھانے، پہننے، اوڑھنے کا نام نہیں بلکہ وہ آداب و اطوار ہیں جن کے تحت انسان صحت مند اور قابل قبول زندگی گزارتا ہے اور ایسا صرف اسلامی قوانین کے ذریعے ہی ممکن نظر آتا ہے۔ کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔۔۔ اللہ نے انسان کی زندگی کا مقصد واضح طور پہ بیان کر دیا ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ تربیت حقوق اللہ اور حقوق العباد کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے کا نام ہے۔ ۔۔۔ کرنے کے عمل کا نام تربیت ہے۔

اگر ہم اپنے نو عمر بچوں کے سامنے تقاریر کی بوچھاڑ بھی کر دیں تو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو گا۔ بچوں پہ الفاظ کا اثر کہاں ہوتا ہے بچے تو وہ کرتے ہیں جو وہ بڑوں کو کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ایک ماہر نفسیات J.B( Watson)کے مطابق بچوں کو کچھ بھی بنایا جاسکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایک درجن صحت مند بچے دے دیں وہ انھیں اپنی مرضی سے کسی بھی چیز کا ماہر بنا سکتے ہیں۔   بچے وہی کرتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں بچوں میں نقل کرنے کا مادہ سب سے زیادہ ہوتا ہےجس کے لئے نفسیات میں ایک اصطلاح modelling استعمال کی جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ الفاظ بے اثر ہوتے ہیں۔ الفاظ کی بھی تاثیر ہوتی ہے جیسے جیسے بچے بڑھتے ہیں ان کے لئے الفاظ کی تاثیر بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن عمل وہ وہی کریں گے جو والدین کو کرتے پائیں گے۔ بسا اوقات ہم اپنے بچوں سے  بڑوں والی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ جو کام ہم سرانجام دینا نہیں چاہتے وہ بچوں سے امید کر بیٹھتے ہیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں ہم اکثر اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ بیٹے جھوٹ نہیں بولنا اللہ پاک گناہ دیتے ہیں۔ جو پیارے بچے ہوتے ہیں نا وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں ۔۔۔ جب ہم نے انھیں عملی طور پہ بات سمجھانی ہوتی ہےتو ہم چوک جاتے ہیں۔ جب ہمیں سچ بولنا پڑے تو ہم کوئی بات گھڑ لیتے ہیں جیسے دروازے پہ کوئی آئے بابا آپ سے ملنے انکل آئے ہیں اور انکل سے ملنے کو دل نہ چاہتا ہوتو ہمارا جھٹ سے جواب ہوتا ہے ہے کہ کہہ دو ںابا گھر نہیں ہیں۔ بچوں پہ ہمارے لمبے چوڑے واعظ کی بجائے ہمارے عمل کا دیرپا تاثر قائم رہتا ہے۔

ایک مصنفہ نے لکھا تھا اولاد کی تربیت کرنے کے لئے لڑکی کو بیس سال پہلے اپنی تربیت کر لینی چاہئیے۔ کیونکہ لفظوں سے زیادہ عمل تاثیر رکھتا ہے۔ ماں اگر صوم و صلوہ کی پابند ہے تو اولاد بھی ماں کے دیکھا دیکھی پڑھے  گی خواہ انھیں نماز کی دعائیں یاد ہوں نہ ہوں ۔ یہاں اس مرحلے پہ انسان کی قولی تربیت کام آتی ہے دعائیں سکھانے میں یا کوئی بھی ایسی تعلیم دینے میں۔ اگر ماں ٹی۔وی۔ میوزک سنتی ہے تو اولاد بھی اس فتنے سے باز نہیں رہے گی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی اولاد کو اچھا اور نیک انسان بنانے کے لئے خود کو ٹھیک کرنا ہوگا خود اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنی ہوگی تاکہ ہماری اولاد ہمارے لئے صدقہ جاریہ بن جائے ناکہ وبال جان ۔۔۔ 

اللہ ہمیں اپنی زندگی اسلامی قوانین کے مطابق گزارنے کی توفیق دے آمین۔

وماعلینا الاالبلاغ۔۔۔

ازقلم : ام محمد۔

ڈپریشن

 ﷽                     ڈپریشن، اسلام اور علاج        از قلم: ام محمد ؎اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ...