Wednesday 16 September 2020

جادو یا نفسیاتی خلجان

 ﷽

جادو یا نفسیاتی خلجان؟؟؟

معزز قارئین! اگر ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں عجیب قسم کی بھاگم بھاگ اور افراتفری محسوس ہوتی ہے۔جو ہماری تیز رفتار زندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہم نے اپنی رفتار کو قائم رکھنے کے لیے اپنی زندگی میں ناخالص(ملاوٹ زدہ) چیزیں شامل کر لی ہیں ۔اس  ملاوٹ زدہ  ماحول میں رہتے ہوئے ہمیں کوئی بھی چیز خالص  میسر نہیں ہوسکتی۔ خواہ اس کا تعلق ہم سے ، ہماری خوراک  سے ، یا پھر  ہمارے طریقہ علاج سے کیوں نہ ہو؟ جب احساس و اخلاص ہی ناپید ہوچکے ہوں تو مسیحا بھی کیا مسیحائی دکھائیں گے۔خواہ ان کا تعلق  جسمانی و نفسیاتی عوارض سے ہو یا  جادو جیسے قبیح امر سے ہو۔

معززین! کہا جاتا ہے کہ اگر مسئلے کی نوعیت سمجھ  آ جائے تو  اس کا حل تلاشنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔نفسیاتی عوارض(psychological disorder)اورجادو(magic/spell) میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے،جس کی وجہ سے  ہمیں مسئلے کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ تو اس کے لئے بھی مفکرین و علماء کرام نے کچھ معیار وضع کر دئیے ہیں۔  پہلے ہم ان دو نوں اصطلاحات کے بارے میں جان لیتے ہیں کہ ان کا مطلب کیا ہے تاکہ ہمیں مسئلے کی نوعیت سمجھنے میں مدد ملے اور ہم اپنی اور دوسروں کی اچھے سے رہنمائی کر سکیں۔

امام رازی ؒ  جادو کی تعریف کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں: "شرعی اصطلاح میں جادو ہر اس امر کو کہتے ہیں جس کا سبب پوشیدہ ، خلاف ِحقیقت نظر آئےاور دھوکہ دے"

اور جو شخص اس کا علاج(دم) کرتا ہے اسے راقی کہتے ہیں اور  جو دم کیا جاتا ہے اسے رقیہ کہتے ہیں۔راقی اور رقیہ دونوں شریعت کے مطابق  ہوں تو علاج مؤثر ہوتا ہے۔

معززین ! اب  نفسیاتی خلجان کی بات کرتے ہیں، خلجان کو انگریزی میں(agitation/anxiety) ہیں۔نفسیات انسان کے ذہنی و فکری  رویوں کے مطالعے کا نام ہے،مزید برآں کہ اس میں پیدا  ہونے والی پیچیدگیوں(خلجان)کے اسباب، حالات اور  نتائج کا جائزہ لینا ہے۔گو یہ کے ہر وہ قول و فعل جو انسان کے تفکر و تدبر پر برے اثر ڈالے  اس کے بارے میں آگہی کو نفسیات کا علم کہتے ہیں۔اور اس کا علاج کرنے والے کو ماہر نفسیات(psychologist/ psychiatrist ) کہتے ہیں۔

معزز قارئین ! اب ہم ان کی تفصیل  دیکھتے ہیں ،جب انسان کو حالات ساز گار نہ لگتے ہوں ، کچھ بھی  اس کی چاہت کےمطابق نہ ہو اور نہ ہی وہ اسکی اہلیت رکھتا ہو تو حسدو بغض کی بناء پر، اپنی ہٹ دھرمی و اجارا داری قائم رکھنے کے لئے  جادو جیسے  غلیظ عمل سے مدد لیتا ہے۔قرآن میں واضح الفاظ میں جادو کا ذکر ہے۔

اور ان (جادو منتر)کے پیچھے لگ گئےجو سلیمان کے دور میں شیاطین پڑھا کرتے تھےاور سلیمان نے کفر کی بات نہیں کی ، بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔(سورہ البقرہ #102)

دوسری جگہ قرآن نے سیدنا موسیٰؑ اور جادو گروں کا مکالمہ نقل کیا ہے۔سورہ طہ (65-66#)میں یہ واقعہ اس طرح نقل ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ موسیٰ تم ڈالتے ہو یا ہم پہلے ڈالنے والے بنیں؟ موسیٰ نے کہا کہ تم ہی ڈالو ، پھر ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو خیال گزرا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑ رہی ہیں۔ 

جادو کا اثر تھا کہ عام رسیاں اور لاٹھیاں سانپ لگنے لگیں ۔حقیقی اور بڑی سطح پہ کئے جانے والے(magic shows) میں بھی ساحر اپنا منتر لوگوں کی آنکھوں پہ پھونکتاہے جس کے باعث دیکھنے والے وہی دیکھتے ہیں جو وہ دیکھانا چاہتا ہے۔سحر (جادو)  کا ہوناحق ہے، اور یہ خرافات آج کے دور کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ صدیوں پرانا طریقہ ہے۔جس میں بدلہ لینے کی سکت نہیں وہ دور بیٹھے  سامنے آئے  بغیرجادو کے ذریعے دوسروں کو برباد کردے ۔کسی بھی عمل کے مؤثر  ہونے کے لئے کچھ شرائط کا ہونا ضروری ہے خواہ عمل درست ہو یا غلط۔جادو بھی تب تک  واقع نہیں ہوتا جب تک اس کی شرائط پوری نہ کی جائیں مثلا شیطان کے ماتحت ہونا،اسکی  غلامی کرنا، شرک کرنا، غلیظ کام کرنا ، اور ایسا کلام (منتر) پڑھنا جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ اس طرح جنوں(شیاطین) سے دوستی گانٹھ لیتا ہےاور شیطان (upper hand) ہونے کی بنیاد پہ اس کے تمام  مکروہ کام انجام تک پہنچانے میں اس کی مدد کرتا ہے۔الفاظ بھی تاثیر رکھتے ہیں تعریفی الفاظ دوسرے کو خوشی دیتے ہیں تو تحقیر و تنفر بھرے الفاظ دوسروں کو اذیت دیتے ہیں ۔یہ بات تو جاپان کے ایک مصنف(ماسارو ایموتو/masaru imoto) نے 1999ء میں اپنی شائع ہونے والی کتاب (message from water)میں بیان کی ہے۔انھوں نے پانی کو دو حصوں میں تقسیم  کیاایک پر (thank you, love & family)اور دوسرے پر(you made me sick) لکھا اور انھیں جما دیا گیا اور دیکھا  گیا کہ  فیملی والے پانی کے کرسٹلز بہت خوبصورت بنے ہیں جبکہ دوسرے پانی کے بہت خراب اور گندے بنے ہیں۔جب ہمارے الفاظ اتنی اہمیت رکھتے ہیں تو اس ذات کے الفاظ کی کیا تاثیر ہوگی جو ہر نقص سے پاک ہے اسی لئے تو کلام اللہ  کے  میں  ہمارے  لئےرحمت و شفاء  ہے جبکہ جادو منتر میں نقصان و قباحت اور تکلیف  پوشیدہ ہے۔

ہر عمل کے نتیجے میں کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں اسی  طرح جادو ہو جانے کے بعد بھی ہمیں علامات نظر آتی ہیں ۔اور یہ ہی علامات  ہمیں جادو کی شدت(intensity) ، نوعیت (nature/type) کا پتہ بتاتی ہیں۔ مثلا  جسمانی علامات (physical complaints)پٹھوں میں کھنچاؤ(muscles stiffness )، دل کی دھڑکن کا تیز ہونا(palpitation)،  بیزاری(irritability) ، سر درد (headache)،عدم دلچسپی(loss of interest) یا  جسم کے مختلف حصوں میں درد رہناوغیرہ شامل ہیں۔اور اس کے علاوہ عبادات میں خلل جیسے کہ نماز نہیں پڑھی جاتی،  قرآن کی تلاوت  اور ذکر الہی  سے دل میں گھٹن پیدا ہوتی ہو ۔

یہی علامات نفسیاتی عارضہ، ڈپریشن(depression) میں پائی جاتی ہیں جیسے جادو کسی کی فکری صلاحیتوں کو مفقود کرتا ہے اسی طرح نفسیاتی عارضہ سے بھی ہماری ذہنی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ یہاں  ایک بات واضح  رہے کہ جادو ایک عمل (process)ہے جبکہ نفسیاتی عوارض کسی بھی عمل کا نتیجہ ہو سکتے ہیں خواہ اس کا تعلق جادو  سے ہویاہمارے رویوں  سے، کسی چیز کے دور ہونے کا خوف ہو یا کسی چیز کی عدم دستیابی  کی پریشانی، وسوسے ہوں یا واہمے ۔اب جب ان کی بظاہر علامات میں اتنی مماثلت ہے تو ہمیں پتہ کیسے چلے گا کہ بندے  کو نفسیاتی مسئلہ ہے یا اس پہ جادو ہے یہ جاننا کافی مشکل ہے۔جادو ہو یا نفسیاتی خلجان دونوں ہی  نہ تو آنکھ سے دیکھےجاسکتے ہیں، نہ ہاتھ سے چھو ئے جاسکتے ہیں جس کی بنا پہ لیب  ٹیسٹ کے ذریعے  معلوم کر لیں کہ مسئلہ کیا ہے؟ اس کے لئے معالج کا فہیم اور باریک بین ہونا ضروری ہے تاکہ  وہ معاملہ کی تہ تک پہنچ کے  اس کی ٹھیک طرح تشخیص کر سکے۔ اگر کسی کو مسلسل تکلیف ہے لیکن مسئلہ  سمجھ نہیں آ رہا تو  کسی مستند راقی یا ماہر نفسیات کا رخ کرنا چاہئے۔راقی اس پہ رقیہ کرے گا اگر مریض کو سکون مل رہا ہے اور راقی کو بھی محسوس ہو رہا ہے کہ اس میں کوئی جادو والی علامت نہیں سامنے نہیں آئی تو مسئلہ نفسیات  کا ہے کیونکہ قرآن کی تلاوت سے شیطان کو تکلیف ہوتی ہےجو مریض کی تکلیف سے ظاہر ہوتی ہے۔اور اگر  مسئلہ راقی کی بھی سمجھ سے باہر ہو اس کے تجربے میں ایسا کیس نہ ہو تو بجائے کسی اور مستند راقی کو(refer) کرنے سے ،یہ کہہ دیا جائے کہ اسے نفسیاتی مسئلہ ہے یا شادی کروا دو ٹھیک ہو جائے گا۔  اور نفسیاتی  مسئلہ شمار کرنے کے لئے اس کی باقی زندگی سے شواہد اکھٹے کرنے چاہئیں ، مریض کا گھر والوں سے رویہ کیسا رہتا تھا؟والدین کا آپس میں اور مریض کے ساتھ رویہ کیسا ہوتا ہے؟ بہن بھائیوں  کا آپس میں تعلق  کیسا ہے؟ اگر جواب سارے ہی معمول کے مطابق ہیں تو وجہ جادو ہو سکتا ہے ۔ہمارے یہاں لاعلمی کی بناء پر نفسیاتی بیماری کو ڈرامے بازی ، ڈھونگ اور جھوٹ سمجھا جاتا ہے۔جس کی وجہ سے بیمار ی پہ توجہ نہیں دی جاتی اور معاملہ  سنگین صورتحال اختیار کر جاتا ہے۔ہمارے رویے  انسان کو اتنا شکستہ  دل(depressed) کر دیتے ہیں کہ بسا اوقات نو بت خود کشی تک جا پہنچتی ہے۔ایک ماہر نفسیات (carl rogers)کے مطابق  نفسیاتی شخص کو مریض نہیں کہنا چاہیے بلکہ اس کے لئے کلائنٹ (client)کہنا زیادہ موزوں ہے۔جب نفسیاتی شخص کے لئے بھی کلائنٹ استعمال کرنا چاہئے تو ہم کسی اور انسان کے لئے کیونکر استعمال کریں؟

معززین !جیسے بعض راقی حضرات کا رویہ بددل کرتا ہے اسی طرح ماہرین نفسیات  کا رویہ بھی کادل برداشتہ کرتا ہے۔پچھلے دور کی نسبت آج کے دور میں لوگوں میں ماہرین نفسیات کے ہاں علاج  رواج بنتا جا رہا ہے ،تو ماہرین نفسیات کو بھی ان کا اچھی طرح معائنہ کرنا چاہئے ان کی پچھلی زندگی (life history)کو  مدنظر رکھنا چاہئے اور پورے خلوص سے (tests administer) کرنے چاہئیں ۔ ماہرین نفسیات تو جن اور  جادو کے وجود سرے سے قائل نہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو سراسر ڈھونگ ہے  کوئی جادو وادو نہیں ۔ جیسا کہ اوپر قرآن نے جادو کی حقیقت کو واضح کر دیا ہے اب جادو برحق ہے تو ہے خواہ ہم ماہر نفسیات ہیں، سائنسدان ہیں، ڈاکٹر ہیں یا وکیل ہیں ہمیں قرآن پہ ایمان رکھنا ہے بس۔ ماہرین نفسیات کے پاس بھی ایک کلیہ موجود ہے جب کلائنٹ میں (progress) نظر نہ آئے ،اپنی (theories)کام کرنا بند کر دیں اور معاملہ کی نوعیت سمجھ سے بالاتر ہو تو یہ کہہ کے ہاتھ جھاڑ لئے جاتے ہیں کہ  اسکی مرضی پوری کر دیں ٹھیک ہو جائے گا، یا یہ خود ٹھیک نہیں ہونا چاہتا۔ کیا یہ مخلصانہ رویہ ہے۔۔۔؟

معززین!اب  ذرا  ان کے علاج پہ بھی اچٹتی نگاہ ڈالتے ہیں۔ ویسے تو قرآن جادو اور نفسیاتی عواض کے لئے (best healer) ہے لیکن بسا اوقات معاملے کی نوعیت  کے مطابق طریقہ علاج مختلف ہو جاتا ہے۔ جادو اور نقصان دہ چیزوں سے حفاظت کے لئے ہمیں  دعائیں و اذکار بتائے گئے ہیں۔ اور ہر وہ دم جائز ہے جو شرک پہ مبنی نہ ہو صحیح حدیث میں ہے کہ:

رسول اللہﷺ نے فرمایا : اپنے دم(کے الفاظ) مجھے بتاؤ، دم میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں شرک نہ ہو۔(مسلم#2200)

علماء کرام کے مطابق  وہ دم جائز ہے جس میں یہ تین شرائط پائی جائیں ۔ عربی زبان میں ہو، شرک نہ ہو، الفاظ بذات خود مؤثر نہیں بلکہ اللہ شفاء دینے والا ہے۔

جبکہ دوسری طرف  نفسیات میں  مختلف طریقوں سے مختلف مسائل کا حل کیا جاتا ہے۔ مسائل کو توجہ سے سن لینا ہی آدھے مسئلے کا حل شمار کیا جاتا ہے ۔مختلف طریقوں (therapies) کو  مد نظر رکھتے ہوئے  منفی سوچوں کو ان کی اصل (مثبت)ڈگر پہ لایا جاتا ہے۔

معززین!اپنے ناقص علم و تجربے کے بعد  میں یہ نتیجہ اخذ کر پائی ہوں کہ ہمیں جو بھی عارضہ لاحق ہے خواہ اس کا تعلق جادو سے ہے یا نفساتی الجھنوں سے، اس میں ہمارے نفس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جب بھی ہم نفس کے تابع ہوتے ہیں  تب ہی ہم  پہ شیطان مسلط ہوا ہے، خواہ وہ جادو کی صورت ہو یا نفسیاتی بیماری کی۔

اللہ بھی قرآن میں فرماتے ہیں کہ: 

"اور جو شخص رحمان کے ذکر سے  تغافل کرتا ہے ، ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔"(سورہ الزخرف# 36) 

کوئی بھی مسئلہ کیوں نہ ہو ہمیں اپنا تعلق دیکھنا ہے  کہ ہمارا تعلق رحمان سے کتنا مضبوط ہےاگر پہلے کمزورتھا تو اب مضبوطی لائی جانی چاہئے۔ خود کو  ذکر الہی  کا عادی  بناناچاہئےجیسا کہ اللہ نے خود کہا ہے

"سن رکھو دلوں کا سکون تو اللہ کے ذکر میں ہے" 

استغفار اور شکرکو لازم و ملزوم کر لینا چاہئے،  بہت فضیلت ہے اس کی اللہ  بندے کو وہاں سے عطا کرتے ہیں جہاں سے  بندہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ہم نے نفس کو اپنے تابع بنانا ہے  شروع میں کافی دشوار لگے گا لیکن اپنی کوشش تمام کرنی ہے ۔ اللہ ہم سب کو ہر قسم کی بیماری سے  اپنی پناہ میں رکھے۔آمین

ازقلم:ام محمد

click the link below to read my more articles

https://razian97.blogspot.com/?m=1

Tuesday 8 September 2020

مصیبت پریشانی آزمائش

 سوال: اگر مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ مصیبت اس کے گناہوں کی وجہ سے ہے یا اس کے درجات میں بلندی کیلیے ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کتاب و سنت میں مصیبتوں اور پریشانیوں کے -اللہ  تعالی کی حکمت اور قضا و قدر کے علاوہ-دو براہ راست اسباب ہیں:

1- انسان کی طرف سے کیے جانے والے گناہ اور نافرمانیاں، چاہے یہ گناہ کفر کی حد تک ہوں یا پھر عام گناہوں یا کبیرہ گناہوں سے تعلق رکھتے ہوں، چنانچہ جزا اور فوری سزا کے طور پر اللہ تعالی کی طرف سے گناہ گار شخص کو مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ )
ترجمہ: آپ کو کوئی بھی نقصان پہنچے تو یہ تمہاری اپنی وجہ سے ہے۔[النساء:79]
مفسرین کہتے ہیں: یعنی: آپ کے گناہوں کی وجہ سے ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
( وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ)
ترجمہ: اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے اپنے اعمال  کی وجہ سے ہے، [حالانکہ] اللہ بہت سے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ [ الشورى:30 ]
دیکھیں: "تفسیر القرآن العظیم" (2/363)

اور انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب اللہ تعالی کسی بندے کیساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے، اور اگر کسی بندے کیساتھ برا ارادہ فرمائے تو اسے گناہوں کی سزا دنیا میں نہیں دیتا، تا کہ قیامت کے روز اسے مکمل سزا ملے)
اس روایت کو ترمذی: (2396) نے  روایت کیا ہے اور حسن کہا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے سے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔

2- دوسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے صابر اور مؤمن بندے کے درجات بلند کرنا چاہتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی اسے مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تا کہ وہ اللہ تعالی کی آزمائش پر راضی ہو اور صبر کرے ، نتیجے میں اللہ تعالی اسے آخرت میں صابرین کے اجر سے نوازے، اور اپنے ہاں اسے کامیاب لوگوں میں لکھ دے، یہ بات مسلمہ ہے کہ انبیائے کرام اور نیک لوگوں کو بھی آخر دم تک مصیبتوں کا سامنا رہا، اللہ تعالی نے ان کیلیے ان مصیبتوں کو جنتوں میں بلند درجات حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا، یہی وجہ ہے کہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب انسان کیلیے اللہ تعالی کے ہاں کوئی ایسا درجہ مختص ہو جسے پانے کیلیے انسان کے اعمال ناکافی ہو تو اللہ تعالی اس کو جسم، مال، یا اولاد کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے)
ابو داود: (3090) اسے البانی نے سلسلہ صحیحہ : (2599)میں  صحیح کہا ہے۔

اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جتنی آزمائش کڑی ہو گی اجر بھی اتنا ہی عظیم ہوگا، اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو ان کی آزمائش فرماتا ہے، چنانچہ جو اللہ تعالی کی آزمائش پر راضی ہو جائے تو اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جو اللہ تعالی کی آزمائش پر ناراضگی کا اظہار کرے اس کیلیے اللہ تعالی کی طرف سے ناراضگی ہوتی ہے)
اس حدیث کو ترمذی : (2396) روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا، نیز شیخ البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ: (146) میں صحیح قرار دیا ہے۔

مصیبتوں میں مبتلا کرنے کے مذکورہ دونوں اسباب عائشہ رضی اللہ عنہا کی درج ذیل حدیث میں یکجا جمع ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کسی بھی مسلمان کو کوئی بھی کانٹا یا اس سے بڑی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے، یا اس کا گناہ مٹا دیتا ہے)
بخاری: (5641) مسلم: (2573)

پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ دونوں اسباب یکجا ہو جاتے ہیں، اور ان کے یکجا ہونے کی مثالیں الگ الگ ہونے سے زیادہ ہیں: جیسے کہ آپ کو عام دیکھنے میں ملے گا کہ: جسے اللہ تعالی کسی مصیبت میں مبتلا فرمائے اور وہ اس پر صبر و شکر کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور جنت میں  درجات بلند کر دیتا ہے ، نیز اسے صابرین کے اجر سے بھی نوازتا ہے۔

بالکل اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالی مصیبتوں میں اس لیے مبتلا فرماتا ہے تا کہ وہ جنت میں اپنے لیے مختص درجے تک پہنچ سکے تو اس کے بھی گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ، نیز اس مصیبت کو دنیاوی سزا شمار کر لیا جاتا ہے اور آخرت میں اسے مزید سزا نہیں ملے گی، جیسے کہ کچھ انبیائے کرام کیساتھ ایسا ہوا، مثال کے طور پر: آدم علیہ السلام اور یونس علیہ السلام، کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو جنت سے بے دخل کیا، اور یونس بن متی علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں مبتلا کیا، تو اللہ تعالی نے دونوں کے درجات اس لیے بلند فرمائے کہ انہوں نے ان پر صبر کیا اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھی، چنانچہ ان کیلیے یہ مصیبت یونس اور آدم علیہماالسلام سے سر زد ہونے والی غلطی کا کفارہ بن گئی۔

آپ کی مزید رہنمائی کیلیے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دنیاوی سزا اخروی سزا سے منسلک ہوتی ہے جدا نہیں ہوتی، نیز مذکورہ دونوں اسباب کا تذکرہ یکجا متعدد صحیح احادیث نبویہ میں موجود ہے، جیسے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن لوگوں کی آزمائش سخت ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انبیائے کرام کی، ان کے بعد جو جس قدر انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے والا ہوگا انہیں اسی قدر آزمائش میں ڈالا جائے گا، چنانچہ ایک آدمی کو اس کی دینداری کے مطابق ہی آزمایا جاتا ہے، جتنی دینداری ٹھوس ہوگی آزمائش بھی اتنی ہی سخت ہوگی، اور اگر اس کی دینی حالت پتلی ہوگی تو اس کی آزمائش بھی  کم ہوگی، حتی کہ آزمائشیں انسان کے گناہوں کو مکمل طور پر مٹا دیتی ہیں اور انسان زمین پر چلتا پھرتا ہے اور اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا)
ترمذی: (2398) نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا ۔

لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ مذکورہ دونوں اسباب میں سے کوئی ایک سبب دوسرے کی بہ نسبت زیادہ عیاں ہو، اور اس فرق کو مصیبت سے متعلقہ دیگر قرائن اور شواہد کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے:

چنانچہ اگر مصیبت زدہ شخص کافر ہو تو ایسی صورت میں اس کی آزمائش بلندیِ درجات کیلیے نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ قیامت کے دن کافر کی نیکیوں کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی وزن نہیں ہوگا، لیکن اس مصیبت کی وجہ سے دیگر لوگوں کو نصیحت ہو سکتی ہے کہ وہ مصیبت زدہ کافر کو دیکھ کر سیدھے ہو جائیں اور کافر جیسی غلطی خود نہ کریں، بسا اوقات کافر کیلیے پیش آمدہ مصیبت دنیاوی عذاب کا حصہ ہوتی ہے جبکہ آخرت میں ملنے والا عذاب اس کے علاوہ ہوگا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لا يَعْلَمُ فِي الأرْضِ أَمْ بِظَاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ [33] لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الآخِرَةِ أَشَقُّ وَمَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ )
ترجمہ: [الرعد :33-34]

اور اگر مصیبت زدہ شخص مسلمان لیکن گناہ کر کے دوسروں کو بتلانے والا ہو یا ایسا فاسق ہو جس کے فسق کا سب کو علم ہو تو ایسی صورت میں پیش آمدہ مصیبت گناہ مٹانے کیلیے دی جانے والی جزا اور سزا  زیادہ محسوس ہوتی ہے؛ کیونکہ درجات کی بلندی سے قبل گناہوں کا خاتمہ پہلے کیا جاتا ہے، اور گناہ گار کو درجات کی بلندی سے پہلے گناہوں کی صفائی اور کفارے کی ضرورت ہوتی ہے۔

دوسری جانب اگر کوئی نیک عبادت گزار مسلمان مصیبت زدہ ہو ، اس شخص نے کبھی اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کی ہو ہمیشہ اللہ تعالی کی بندگی میں مگن رہتا ہو، حمد و شکر زبان پر جاری رہے، اللہ سے لو اور ناتا جوڑ کر رکھے، تو ایسے مسلمان کے متعلق یہی زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ : پیش آمدہ مصیبت  درجات کی بلندی کیلیے ہے۔

جتنے بھی لوگ ہیں یہ زمین پر اللہ تعالی کے گواہ ہیں ، چنانچہ اگر کسی شخص کی نیکی اور تقوی کا علم ہو اور پھر اسے مصیبت زدہ پائیں تو وہ مصیبت پر صبر کرنے کی صورت میں اللہ تعالی کی جانب سے بلندیِ درجات  کی خوشخبری اور نوید سنا سکتے ہیں۔

لیکن اگر مصیبت زدہ شخص نے جزع فزع سے کام لیا تو ایسی صورت میں اس مصیبت کو بلندی ِ درجات کا سبب نہیں سمجھا جائے گا؛ کیونکہ اس شخص نے اللہ تعالی کے فیصلے پر بے صبری اور ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے، تو ایسی صورت میں یہ مصیبت جزا اور سزا سے تعلق رکھے گی۔

کچھ نیک لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ: "مصیبتیں اس وقت سزا ہوتی ہیں جب مصیبت آن پڑنے پر بے صبری کا مظاہرہ ہو اور لوگوں کے سامنے شکوی شکایت کی جائے"

جبکہ مصیبت گناہوں کا کفارہ اس وقت بنتی ہے جب مصیبت پڑنے پر شکوی شکایت نہ کی جائے بلکہ صبر کا مظاہرہ کیا جائے، آہ و بکا، اور دیگر احکاماتِ الہیہ کی ادائیگی میں بوجھ محسوس نہ کیا جائے۔

نیز مصیبتیں بلندیِ درجات کا سبب اس وقت بنتی ہیں جب مصیبت پڑنے پر اللہ تعالی کے اس فیصلے کو مکمل رضا مندی  سے قبول کرے، دل مطمئن رہے، اور تقدیری فیصلوں پر افراتفری کا شکار نہ ہو، یہاں تک کہ تقدیری فیصلے ٹل جائیں" انتہی

مذکورہ باتیں حتمی نہیں ہیں بلکہ قرائن و شواہد ہیں انہیں بروئے کار لا کر انسان مصیبتوں اور تکلیفوں کی جانچ پڑتال کر سکتا ہے، لیکن ان کے بارے میں حتمی بات نہیں کی جا سکتی نہ تو اپنے بارے میں اور نہ ہی کسی اور کے بارے میں۔

عین ممکن ہے کہ سابقہ لمبی چوڑی تفصیل سے زیادہ اہم بات یہ ہو کہ:

انسان کیلیے قابل غور و فکر عملی پہلو یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی مصیبت اس وقت تک خیر و برکت کا باعث ہے جب تک مصیبت پر صبر کرے اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید رکھے، اور دنیا کی کوئی بھی مصیبت اس وقت تک شر اور نقصان کا باعث ہے جب تک وہ جزع فزع سے کام لے۔

چنانچہ اگر انسان اپنے آپ کو مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت ڈالے، اللہ تعالی کے فیصلوں پر اظہار رضا مندی کرے تو مصیبت کا سبب علم میں ہو یا  نہ ہو اس سے اُسے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے بلکہ بہتر طریقہ یہی  ہے کہ ہمیشہ اپنے آپ کا محاسبہ کرے، اپنے اندر کی کمی کوتاہی کو تلاش کرے، جہاں خلل پیدا ہوا ہے اس ڈھونڈے کیونکہ ہم سب غلطیوں کے پتلے ہیں، کون ہے جو اللہ تعالی کے بارے میں سستی اور کوتاہی کا شکار نہیں ہے؟  اگر جنگ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی مخالفت کی پاداش میں اللہ تعالی مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں مشرکوں کے ہاتھوں شہید کروا سکتا ہے حالانکہ  وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تھے، انبیائے کرام اور رسولوں کے بعد افضل ترین شخصیتوں کے مالک تھے، تو ایک عام آدمی ہر مصیبت  کے بدلے میں بلندیِ درجات کا خواہش مند کیسے ہو سکتا ہے؟!!

ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ جس وقت سخت اندھیری اور بادلوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھتے تو کہتے: "یہ سب میرے گناہوں کی وجہ سے ہے، اگر میں یہاں سے چلا جاؤں تو تمہیں اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا"

اگر ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ کا یہ حال تھا تو ہماری کیا حالت ہونی چاہیے؟!

ان تمام باتوں سے ہٹ کر اہم ترین بات یہ ہے کہ:

انسان اللہ تعالی کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھے، ہر حالت میں  اللہ تعالی کے بارے میں اچھی سوچ ذہن میں لائے، کیونکہ وہی بخشنے والا اور ڈر کا مستحق ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہم پر اپنی رحمت فرمائے اور ہمیں بخش دے، ہمیں کار آمد علم سکھائے، اور مصیبت پڑنے پر ہمیں اجر سے نوازے، بیشک وہی سننے والا اور دعائیں قبول کرنے والا ہے

بشکریہ islamqa.com

ڈپریشن

 ﷽                     ڈپریشن، اسلام اور علاج        از قلم: ام محمد ؎اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ...