Monday 31 August 2020

صنفی امتیاز


آخر صنفی امیتاز/تعصب کیوں؟

از قلم : ا ٌمّ ِمحمد


میں نے اپنے ارد گرد حالات کی تلخیوں کو جھیلتی بہت سی لڑکیوں کو دیکھا جو ناچار صنفی امتیاز کا شکار معلوم ہوتی تھیں۔ مخالف جنس کے لیے ان کے دلوں میں اتنی کڑواہٹ اور اتنی نفرت دیکھ کے مجھے خیال گزرا کہ اس پہ ضرور سوچوں گی ۔ اس کی وجوہات تک پہنچنے کی کوشش کروں گی۔ جتنا اور جیسے ہو سکا لکھوں گی۔ آتش نمرود اگرچہ چڑیا کی کوشش سے نہ بجھ سکی تھی مگر اس نے اپنی بساط بھر حصہ ڈال دیا تھا۔

میں نے ایسا موضوع لکھنے کے لیے چنا جس کا اگر ایک سرا ہاتھ آتا تو دوسرا چھوٹتا۔ ایسا بھی وقت آیا جب مجھے لگا میں نہیں لکھ سکتی مگر اللہ کا کرم ہوا آخر قلم چل ہی پڑا۔  اگرچہ میں کافی عرصے کی تگ و دو کے بعد  لکھنے کے قابل ہوئی۔ جس بات نے مجھے زیادہ اکسایا وہ چھوٹی بہن کی بات تھی۔ ایک دن میرے پاس آئی اور کہتی کہ بھائی اور بھابھی اپنی بیٹی کے رونے پہ اسے ڈانٹ کے چپ کرواتے ہیں یا کسی چیز کی فرمائش کرے تو اسے ویسے ٹرخا دیتے ہیں لیکن اس کا چھو ٹا بھائی اگر مانگے تو اسے فوراً پورا کر دیتے ہیں آپی ایسا کیوں کرتے ہیں ۔ بیٹیوں سے ویسا سلوک کیوں نہیں کرتے جیسا بیٹوں سے کرتے ہیں؟    مرد و زن میں تعصب کی سرد جنگ ہے۔ کہ ابن آدم موجودہ معاشرے کی اخلاقی غلطیوں کو بنت حوا کی ناکام تربیت کا کہہ کر خود بری الزمہ ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔  یہ صنفی امتیاز و تعصب ہمارے معاشرے میں بری طرح اپنے خونخوار پنجے گاڑ چکا ہے۔ دونوں اصناف ( مرد و زن) کو اپنی برتری کا لوہا منوانے کے لئے جو طریقہ کار گر نظر آتا ہے وہ اپنا لیتے ہیں خواہ اخلاقیات کا اس میں دم گھٹ جائے یا سرے سے ہی معدوم ہو جائیں۔ اسکا کسی کو احساس تک نہیں رہتا۔ کبھی خواتین اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پہ مارچ کرتی نظر آتی ہیں تو کبھی مرد اپنی  ذات کو اعلیٰ و ارفع ثابت کرنے کے لئے جابرانہ سلوک کرتے نظر آتے ہیں۔  میری کوشش ہے کہ جہاں تک اصلاح ہو سکتی  وہ کر سکوں تاکہ اس کار خیر میں تھوڑا سا میرا بھی ہاتھ ہو۔

یہاں ذکر ہوا ہے تحریک حقوق ِنسواں   کا، ہمیں اس مہم کی تاریخ کے بار ے میں تھوری آگاہی  ہونی چاہیئے کہ آیا یہ ناسور ہمارے درمیان کیسے وقوع پذیر ہوا؟ جس نے معاشرے میں اپنے زہر سے اتنی کڑواہٹ پھیلا دی ہے۔ آج کی عورت ہی اپنے حقوق کے لیے نہیں لڑ رہی بلکہ یہ صدیوں پرانی ریت ہے جسے کچھ بے راہ لوگ وراثت کی طرح اپنی نسلوں میں منتقل کرتے آئے ہیں۔ معززین! اس کا ارتقاء 1700 ء سے پہلے ہوا تھا ۔ جسے ایک فرانسیسی مصنفہ عورت نے اپنی ایک کتاب میں لکھا تھا۔ اس کے بعد مغرب اور کچھ دوسرے پسماندہ  میں  آواز اٹھائی گئی جس میں عورتوں کی تعلیم، سیاسی حقوق جیسے ووٹ دینا اور معاشرتی آزادی تھی، یوں ایک منظم و مربوط تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ جو کہ آج تک دھنک رنگوں کی صورت میں ہمارے معاشرے میں جنم لے رہا ہے ۔ایسی صورت میں  عورت  مرد کے شانہ بشانہ تو چلنے لگی مگر اپنی اخلاقی و فطری قیود سے بھی آزاد ہوگئی۔ہمارے یہاں بھی کچھ مغرب کی دلدادہ اور  کچھ احساس کمتری کی حامل خواتین مغربی عورتوں کی دیکھا دیکھی اپنی جدو جہد کا لائحہ  عمل بناتی ہیں اور اس پر عمل کی پر زور کوشش کرتی ہیں۔  Christine de pizan

قارئین! ذرا اب صنفی امتیاز کے بارے میں جان لیں کہ آیا یہ کس بلا کا نام ہے؟ صنفی امتیاز سے مراد کسی شخص کی جنس یا صنف کی بنیاد پر تعصب یا امتیاز ہے۔اور ایک ایسا تصور بھی ہو سکتا ہے جس میں ایک صنف کو فطری  یا پیدائشی طور پر دوسری صنف سے بہتر سمجھا جائے۔جو کہ ہمارے معاشرے میں معمولی بات سمجھی جاتی ہے ابن آدم کو بنت حوا پہ فوقیت دی جاتی ہے ۔یہ امر کسی  تیسرے کے رویے سے سرانجام پاتا ہے یہ افرا   ط و تفریط  ہمارے والدین ، معاشرہ یا کسی بھی شخص   کے ہاتھوں سر زد ہو سکتی ہے۔ہمیں جان لینا چاہئیے کہ کسی بھی شخص کو جنس،رنگ و نسل کی بنیاد پہ کوئی  درجہ حاصل نہیں ہے۔ سب سیدنا آدم ٖٖٖؑ کی اولاد سے ہیں اللہ کے نزدیک وہی برترہے جس کا تقویٰ زیادہ ہے۔آئیے ذرا اس کو اپنے ماحول سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ صنفی امتیاز کی ابتدا ہمارے  گھروں سے ہوتی ہےجب کسی ہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے تو خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا بسا اوقات تو سوگ کی سی کیفیت بنا لی جاتی ہے۔اور بیٹی کی والدہ کو خوب کھری کھوٹی سنائی جاتی ہے جبکہ بیٹے کی ولادت پہ سارےخاندان میں میٹھایاں  تقسیم کی جاتی ہیں۔اگر بھائی چھوٹا ہے تو اسے چھوٹے ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت  دی جاتی ہے اور اگر وہ بڑا ہے تو اسکی عزت کی بناء پر اسے خاص مقام دیا جاتاہے۔ گویہی انداز دینا کے ہر شعبے میں دیکھنے کو ملتا ہے۔مرد کو  مرد  ہونے کی وجہ سے کافی مرعات دی جاتی ہیں اور جہاں بات عورت  کی آتی ہے تو  اسے ناقص العقل خیال کرتے اسے اس کے خیالات سمیت  چپ کروا دیا جاتا۔ یہی غیر منصفانہ تقسیم بعد میں معاشرتی ناسور(تعصب) بن کے سامنے آتی ہے۔ 

معززین!  یہاں ذکر جنسی تعصب کا ہوا ہےجسے ہم اسی تصویر کا دوسرا رخ بھی  کہہ لیں تو غلط نہ ہوگا۔ہم یہاں اس کی بھی  وضاحت بھی پڑھ لیتے ہیں کہ تعصب کا مطلب کیا ہے اور کس طرحد تک ہمارے معاشرے میں طول پکڑ چکا ہے۔تعصب کے لغوی و اصطلاحی معنی پٹی باندھنا، مقابلہ کرنے کے ہیں۔ تعصب  کئی اقسام کا ہوتا ہے مثلا مذہبی، نسلی، معاشرتی، قومی۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں ہم ذکر کریں گے جنسی تعصب کا۔تعصب کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان دوسرے انسان کی تذلیل کرتا ہے، اپنے مخالف کو کمتر گردانتا ہے۔جس سے دوسرے کی عزت نفس مجروح  ہوتی ہے۔انسان حقوق العباد میں غفلت برتتا ہے بسا اوقات عمدا                       ادا   نہیں  کرتا۔ تعصب اپنے ساتھ اور بہت سی بیماریوں  کو کارندے بناکر لاتا ہے جیسے حسد و بغض،الزام و بہتان تراشی اور افتراء پردازی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔آئیے اب ہم  اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس قدر زبوں حالی کا شکار ہے۔ کوئی بھی بات یا سوال   بحیثت  لڑکی کسی مرد سے کرے تو چپ کروا دیا جاتا ہے خاتون یہ آپ کا  کام نہیں آپ گھر کا ہانڈی چولہا کریں  اور اگر یہی سوال ایک لڑکے کے طور پر کیا جائے تو اس کا مدلل جواب دیا جاتا ہے۔کیا یہ کھلا تعصب نہیں؟ عصبیت میں صرف ان لوگوں کا شمار نہیں ہوتا جو دین کا علم نہیں رکھتے بلکہ یہاں چند ایک احادیث پڑھے جو خود کو عالم سمجھنے کی کوتاہی کر بیٹھتے ہیں وہ بھی خواتین  کے تمسخر و تحقیر میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔احادیث سے اپنی مرضی کا مفہوم نکال کر  عورت کی تحقیر کرتے ہیں مثال کے طور پہ عورت ہوتی ہی کم عقل ہے اسی لیے خاموش رہا کرو، عورت کو تو پیدا ہی ٹیڑھی پسلی سے کیا ہےاسی لیے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔اب بات کرتے ہیں عورت میں کس قدر اور کس قسم کا تعصب پایا جاتا ہے؟ مرد تو ہوتے ہی ظالم ہیں، ہمیں قید کر نے پہ ہی خوش ہیں، مرد کبھی ہماری بات نہیں سمجھ سکتے۔مردوں کو اپنے علاوہ کسی سے سروکار نہیں ہوتا۔۔۔۔اسی طرح کی سوچ ہمارے دماغوں میں بھری ہے۔ خدارا ایک آدمی کا فعل پوری صنف پہ لاگو نہیں ہوتا، ہر کوئی دوسرے سے مختلف ہے۔

معززین! کسی بھی معاشرے کی اخلاقی تباہی و تنزلی کا وقت تب شروع ہوتا ہے جب وہاں کے باسی اپنی تعلیمات و اقدار سے انحراف کرتے ہیں۔ اور اپنے خالق حقیقی کی طے کردہ حدود و قیود سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ نے ہر چیز کا ایک نظام مقرر کر دیا ہے کائنات  میں موجود ہر ستارہ  و سیارہ اپنے مدار میں گردش کرتا ہے اور جس دن یہ اپنے مدار سے باہر آئے آپس میں ٹکراؤ ہوگا اور تباہی(قیامت)مقدر ہوگی.تاریخ گواہ ہے جب بھی اولاد آدم نے اپنے متعین راستوں کو چھوڑا ہے یا تو تباہی سے ان کا پالا پڑا ہے یا انھیں خلاؤں میں لٹکتا چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ کہیں کے نہ رہے۔ہمارا تباہی سے بچنا اس وقت ممکن ہوگا جب ہم اسلام کی  متعین کردہ حدود کی پاسداری  کریں گے۔ اسلام  ایک مکمل ضابطہ حیات  ہے یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اس سے ہٹ کر چلیں  اور ہمیں فلاح  و کامران بھی ملے ۔اللہ نے تو ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی اس صنفی امیتاز و تعصب کا قلع قمع کر دیا تھا۔

جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی  ارشاد فرماتے ہیں کہ:"اے لوگو! بے شک ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمیں مختلف قوموں اورخاندانوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔یقین رکھو کی اللہ سب کچھ جاننے والاہر چیز سے باخبرہے"۔(الحجرات#13) 

اس آیت سے یہ بات ثابت ہوچکی کہ تقوی واحد چیز ہے جس کی بنا پر ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے اور تقوی کا تعلق بندے اور اللہ کے درمیان پوشیدہ ہے کوئی تیسرا اس کو نہیں جان سکتا۔اللہ نے دنیوی زندگی گزانے کے لیےکچھ طریقہ کار وضع کیے ہیں جن میں کبھی کسی ایک کو دوسرے پہ فوقیت دی ہےجیسے معاش کی ذمہ داری مرد پہ ڈالی گئی ہےاور یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کی بنا پر اللہ نے  فوقیت دی ۔ 

جبکہ دوسری طرف  اللہ نے عورت (ماں) کے حق کو باپ کے حق  پہ مقدم رکھا ہے،  "ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا میرے حسن صحبت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا تیری ماں، اس نے پوچھا   پھر کون ؟فرمایا تیری ماں ، اس نے عرض کیا پھر کون ؟ ارشاد ہوا تیری ماں،  اس نے عرض کیا  پھر کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تیرا باپ "۔(صحیح بخاری: 5971)

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: "مرد عورتوں پہ نگہبان اس لئے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہےاور اس لئے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کئے"۔(النساء#34) 

جبکہ دوسری جگہ اللہ نے عورتوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہےاللہ فرماتے ہیں کہ: عورتوں کے لئے بھی معروف طریقہ پر ویسے حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں البتہ مردوں کو ایک درجہ ان پہ فضیلت حاصل ہے(البقرہ#228)  ۔ "

اللہ تعالیٰ سورۃ حم السجدہ #46 میں فرماتے ہیں کہ : جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہوگی اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہرگز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں شرک کی نفی کے بعد جو بات ذکر فرمائی وہ یہ تھی عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ، ان کے ساتھ نرمی کا سلوک رکھو۔ اللہ نے عورت کو  گنتی کے احکام کا   پابند کر دیا جبکہ مردوں کو عورتوں کے ہر معاملے  میں ڈرنے کا حکم دے دیا۔خواہ کوئی بھی فیصلہ ، حکم کچھ بھی ہو اس میں اللہ کا ڈر شامل ہو کہ اللہ یہاں سے نہ ہماری پکڑ کر لے یا وہاں سے سر زنش نہ ہو جائے۔ہمارے معاشرے میں بیٹی کو زحمت خیال کیا جاتا ہے اور بیٹے  کی آمد پہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اسلام نے ہمارے اس رویے کو ترک کردیا ، بلکہ اچھی پرورش کرنے والے کو جنت کی بشارت بھی دی۔ بیٹی کو رحمت قرار دے دیا گیا ۔

ارشاد بنویﷺ ہےکہ جس شخص  کی دو یا تین بیٹیاں ہوںاور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے(اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کر دے)تو میں  اور وہ شخص جنت میں اس  طرح داخل ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاںملی ہوئی ہیں۔(ترمذی) 

جبکہ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف سے کام لو(متفق علیہ)۔ 

رسول اللہ ﷺ تو پیکر شفقت تھے پھر عورت کیونکر اس شفقت سے محروم ہوتی ؟ رسول اللہ ﷺ نے تو عورت کو آبگینے (کرسٹل)کہا ہے۔ اور ایسی چیزوں کو بہت احتیاط سے محفوظ مقام پہ رکھا جاتا ہے ہلکی سی ٹھیس بھی ان کے لیے نقسان دہ  ہوسکتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے عورت کو محفوظ مقام بھی بتا دیا،

 ارشاد باری تعالی ہےکہ: اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو    (الاحزاب#33)۔ 

پہلی بات تو یہ ہے کہ مرد کو چاہیے کہ وہ عورت کی ضروریات کا خیال رکھے اور اگر کسی مجبوری کے تحت باہر نکلنا پڑے بھی تو اپنی زینت کو چھپا کے نکلے۔


رب نے تجھے نوازا ہے احترام کے رشتوں سے

تو ہر روپ میں قابل احترام ہے بنت حوا

ہمیں اپنے فرائض پہ نظر رکھنی چاہئے حقوق خود بخود ملتے جائیں گے۔ مرد کو چاہئے جو فرائض اس کے ذمہ ہیں وہ خالص اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے ان کو پورا کرے اسی طرح عورت بھی ادا کرے ۔ نہ تو  فطری و مجموعی  طور پر ابن آدم جابر ہے اور نہ بنت حوا بے راہ روی کا شکار ہے ابن آدم نے اپنے فرائض چھوڑ دئیے۔ اپنا کردار کھو دیا تو بنت حوا نے اپنے حقوق کے لئے لڑنا شروع کر دیااور  اپنی نسوانیت کھو دی۔مرد و زن میں فطری فرق  ہےاور اسی فطری فرق کو لیے اپنی اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ہمارا معاشرہ اس وقت ہی اخلاقی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا جب ہم ایک دوسرے کو ان کی فطرت سمیت سمجھنے کے قابل ہوگئے۔ ہمیں یہ زندگی جینے کے لئے نہیں جینا بلکہ اگلی زندگی جینے کے کئے جینا ہے ۔ جو ہم عمل کریں گے اس کا جواب دہ ہونا پڑے گا۔ ساری بات کا نچوڑ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق گزارنا شروع کر دیں سارے معاملات ٹھیک ہوتے جائیں گے ان شاءاللہ۔

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش

خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن 

اللہ ہمارے احوال پہ رحم فرمائے اور ہمیں اپنی زمہ داریاں سمجھنے اور خوش اسلوبی سے سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

وماعلینا الاالبلاغ۔

تربیت اولاد

 تربیت اولاد 

تربیت اولاد پہ آپکو بہت سارا مواد پڑھنے کو ملے گا لیکن میں نے تھوڑا مختلف انداز اختیار کرنے کی کوشش کی ہے امید کرتی ہوں یہ آرٹیکل ہمیں ایک نئی سوچ ضرور دے گا ان شاءاللہ۔۔۔۔۔ دعاؤں کی طالب *ام محمد*

بچے تو ماں باپ کے باغ کے پھول ہوتے ہیں۔ ان کی خوشبو میں ہی گھر مہکتے ہیں۔ بچوں کے وجود کے بنا گھر ویران دکھائی دیتے ہیں۔ بچوں کی کلکاریاں پریشانی گھٹاتی اور خوشی بڑھاتی ہیں۔ گویا بچے اللہ کی نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہیں۔دعا ہے کہ جن والدین کو ان خوبصورت پھولوں سے نوازا ہے ان کی مہک ہمیشہ برقرار رہےاور باعث تسکین بنی رہے آمین ۔ اور جو اس نعمت سے محروم ہیں اللہ انھیں صالح اولاد عطا فرمائے آمین 

معزر قارئین! اگر آج کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں علم تو کافی مقدار میں ملے گا لیکن عملی جھلک شاذ و نادر ہی آنکھوں کو میسر آتی ہے۔خواہ وہ زندگی کا کوئی بھی پہلو کیوں نہ ہو ؟ اب یہاں بات ہو رہی ہے اولاد کی تربیت کی تو اس میں بھی ہمیں پڑھے لکھے والدین تو واسطہ پڑتا ہے لیکن ان کی تربیت بادی النظر ہی ہوتی ہے۔ہم نے کبھی سوال اٹھایا کہ آج کل ہمارا معاشرہ بے راہ روی کا شکار کس لئے ہے؟ کیوں ہر دوسرا نوجوان ڈپریشن کا شکار ہے؟ کیوں ہمارے بچے ذہنی انتشار کا شکار ہیں؟ معزرین! ہم نے تربیت کو کچھ اور ہی رنگ چڑھا دیا ہے۔ فرد کر معاشرے کی اساس کہا گیا ہے فرد فرد سے مل کر معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔ اور ایک فرد کو اچھا انسان بنانے کے لئے تربیت بنیادی کردار کی حامل ہے۔ آخر ہمیں کونسے عوامل اپنانے چاہیں جو ہماری اولاد کی تربیت میں معاون ہوں، جو ہمارے لئے فائدہ مند ہوں اور آخرت میں بھی جوابدہی آسان ہو جائے۔ اولاد کی تربیت ایک خاصا کٹھن مرحلہ شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ نے بہت بڑی ذمہ داری اولاد کی صورت میں دی ہے۔   

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پہ پیدا ہوتا ہے۔لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری#1359)

بچے کی تربیت کا آغاز تو ماقبل پیدائش شروع ہو جاتا ہے۔ جب حمل(fetus)  کی عمر چار ماہ کے قریب ہوتی ہے تو فرشتہ اس میں روح پھونک دیتا۔ ' حدیث کے مطابق وہ اسکی عمر ، اسکا بخت گویا وہ خوش بخت ہے یا بد بخت ' لکھ کر لے جاتا ہے ۔  اگر یوں کہہ لیا جائے کہ خوش بختی اور بد بختی کسی حد تک والدہ کے اعمال پہ منحصر ہوتی ہے۔ جس طرح بچہ جسمانی بڑھوتری کے لئے ماں کے رحم و کرم پہ ہوتا ہے اسی طرح ذہنی سوچ اور فطرت بننے میں بھی ماں کا کردار شامل ہوتا ہے۔جس انداز میں ماں سوچے گی اسی انداز میں بچے کی سوچ نشونما پائے گی۔  اگر ماں جھوٹ کی عادی ہے تو اس کی اولاد بھی  یہ خاصیت پائے جانے کے امکان موجود ہوں گے الا یہ کہ اللہ اپنا رحم کرے اور بچے کو ٹھیک راہ دکھائی دے۔اسی لئے  پرانے وقتوں کی  نانیاں،دادیاں عورت کو خوش رہنے ، اچھا سوچنے اور قرآن کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی تلقین کرتی تھیں۔ یہ انسان کی فطرت بننے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کی کسی چیز کے بارہ کیا رائے ہے اسی عرصہ میں طے پاتا ہے۔ بات بس یہاں پہ ہی نہیں اختتام پا جاتی بلکہ یہاں  اس تربیت کا آغاز ہوتا ہے جس کا ذمہ دار اللہ نے والدین کوبنایا ہے ۔ والدین کے ہاتھوں اچھا یا برا ماحول دے  دیا جاتا ہے۔ 

 حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اولاد کی تربیت اس طرح نقل کی ہے: والد کے ذمہ اولاد کا حق ہے کہ اسکا اچھانام رکھے اوراسے دودھ پلانے والی کے ساتھ احسان کرے اور اسے اچھا ادب سکھائے۔

مذکورہ بالا حدیث میں لفظ والد کا استعمال ہوا ہے گویا کہ والد کے ذمہ بھی اولاد کی تربیت اتنا حق رکھتی ہے جتنا کہ ماں کی۔  بلاشبہ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا گیا ہے لیکن معززین ! اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باپ بری ہیں ۔ باپ صرف پیسے لا کے دینے کی حد تک نہیں بندھے ہوئے انھیں ادب سکھانے کی بھی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اپنے سلف صالحین کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو وہ اپنی اولاد کی تربیت کے لئے خاصے سنجیدہ تھے۔ اگر ان کی اولاد کوئی نافرمانی کر بیٹھتی تو وہ لعن طعن اور احسان جتلانے کے بجائے کثرت سے استغفار کرتے اور نوافل کا اہتمام کرتے۔ 

اولاد کے ساتھ بے حد شفیق اور نرم رویہ رکھنا چاہئے۔ ان سے پیار کریں انھیں دکھائیں کہ ان سے زیادہ عزیز اور کوئی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پیکر شفقت و رحمت تھے۔ 

’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اللہ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

نفسیات بھی اس بات کی قائل ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد اگراسے   بوسہ دیا جاتا ہے تو اس میں "feeling of acceptance"  آتی ہے وہ خود کو بااعتماد محسوس کرتا ہے کہ مجھے کھلے دل سے اس دنیا میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔ یہ عمل بعد میں پیدا ہونے والے مسائل کو روکتا ہے۔

اولاد کی تربیت میں ماں کا خاصا کردار شامل ہوتا ہے۔ جیسے مائیں سکھائیں گی ویسے ہی بچے سکھیں گے۔ آج کے دور میں ہم نے پڑھی لکھی مائیں تو دیکھی ہیں جو کہ اپنی اولاد کو اردو، انگریزی سکھا دینے کو ہی تربیت کل سمجھتی ہیں۔ ان کی تربیت ہی یہی ہوتی ہے کہ ان کا بچہ فر فر انگریزی بولتا ہے۔  اچھا پہنتا ہے دوسرے بچوں میں پر اعتماد نظر آتا ہے۔اس بات پہ ایک دوسرے پہ فخر کیا جاتا ہے۔ یہ تربیت کا ایک پہلو تو ہوسکتا ہے لیکن اسکو ہی تربیت کانام دے دینا قطعاً درست نہ ہوگا۔ تربیت زبانیں سکھانے، پہننے، اوڑھنے کا نام نہیں بلکہ وہ آداب و اطوار ہیں جن کے تحت انسان صحت مند اور قابل قبول زندگی گزارتا ہے اور ایسا صرف اسلامی قوانین کے ذریعے ہی ممکن نظر آتا ہے۔ کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔۔۔ اللہ نے انسان کی زندگی کا مقصد واضح طور پہ بیان کر دیا ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ تربیت حقوق اللہ اور حقوق العباد کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے کا نام ہے۔ ۔۔۔ کرنے کے عمل کا نام تربیت ہے۔

اگر ہم اپنے نو عمر بچوں کے سامنے تقاریر کی بوچھاڑ بھی کر دیں تو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو گا۔ بچوں پہ الفاظ کا اثر کہاں ہوتا ہے بچے تو وہ کرتے ہیں جو وہ بڑوں کو کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ایک ماہر نفسیات J.B( Watson)کے مطابق بچوں کو کچھ بھی بنایا جاسکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایک درجن صحت مند بچے دے دیں وہ انھیں اپنی مرضی سے کسی بھی چیز کا ماہر بنا سکتے ہیں۔   بچے وہی کرتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں بچوں میں نقل کرنے کا مادہ سب سے زیادہ ہوتا ہےجس کے لئے نفسیات میں ایک اصطلاح modelling استعمال کی جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ الفاظ بے اثر ہوتے ہیں۔ الفاظ کی بھی تاثیر ہوتی ہے جیسے جیسے بچے بڑھتے ہیں ان کے لئے الفاظ کی تاثیر بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن عمل وہ وہی کریں گے جو والدین کو کرتے پائیں گے۔ بسا اوقات ہم اپنے بچوں سے  بڑوں والی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ جو کام ہم سرانجام دینا نہیں چاہتے وہ بچوں سے امید کر بیٹھتے ہیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں ہم اکثر اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ بیٹے جھوٹ نہیں بولنا اللہ پاک گناہ دیتے ہیں۔ جو پیارے بچے ہوتے ہیں نا وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں ۔۔۔ جب ہم نے انھیں عملی طور پہ بات سمجھانی ہوتی ہےتو ہم چوک جاتے ہیں۔ جب ہمیں سچ بولنا پڑے تو ہم کوئی بات گھڑ لیتے ہیں جیسے دروازے پہ کوئی آئے بابا آپ سے ملنے انکل آئے ہیں اور انکل سے ملنے کو دل نہ چاہتا ہوتو ہمارا جھٹ سے جواب ہوتا ہے ہے کہ کہہ دو ںابا گھر نہیں ہیں۔ بچوں پہ ہمارے لمبے چوڑے واعظ کی بجائے ہمارے عمل کا دیرپا تاثر قائم رہتا ہے۔

ایک مصنفہ نے لکھا تھا اولاد کی تربیت کرنے کے لئے لڑکی کو بیس سال پہلے اپنی تربیت کر لینی چاہئیے۔ کیونکہ لفظوں سے زیادہ عمل تاثیر رکھتا ہے۔ ماں اگر صوم و صلوہ کی پابند ہے تو اولاد بھی ماں کے دیکھا دیکھی پڑھے  گی خواہ انھیں نماز کی دعائیں یاد ہوں نہ ہوں ۔ یہاں اس مرحلے پہ انسان کی قولی تربیت کام آتی ہے دعائیں سکھانے میں یا کوئی بھی ایسی تعلیم دینے میں۔ اگر ماں ٹی۔وی۔ میوزک سنتی ہے تو اولاد بھی اس فتنے سے باز نہیں رہے گی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی اولاد کو اچھا اور نیک انسان بنانے کے لئے خود کو ٹھیک کرنا ہوگا خود اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنی ہوگی تاکہ ہماری اولاد ہمارے لئے صدقہ جاریہ بن جائے ناکہ وبال جان ۔۔۔ 

اللہ ہمیں اپنی زندگی اسلامی قوانین کے مطابق گزارنے کی توفیق دے آمین۔

وماعلینا الاالبلاغ۔۔۔

ازقلم : ام محمد۔

ڈپریشن

 ﷽                     ڈپریشن، اسلام اور علاج        از قلم: ام محمد ؎اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ...